لفظ "مولا” کے معنی پر تحقیق

Print Friendly, PDF & Email

یہ مقالہ تقریبا تین سال قبل انہی ایام میں لکھا تھا اور اب موقع کی مناسبت سے اس میں سے چند اقتباسات کے پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں۔ واقعہ غدیر کا تذکرہ ہوتے ہی مومنین کے اذہان میں حدیثِ غدیر "من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ” تازہ ہوجاتی ہے۔ یہ حدیث شیعہ سنی دونوں مکتبہ فکر سے تواتر کے ساتھ نقل کی گئی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ دشمن اسے چھپانے میں ناکام رہا لہکن دوسری طرف اس کے معنی و مفہوم میں ردو بدل کرکے حقیقی پیغامِ محمدی کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ چونکہ لفظ مولا عربی زبان کے ان الفاظ میں سے ہے جن کے ایک سے زیادہ معانی ہیں۔ ابن اثیر نے النھایہ میں لفظ مولا کے تقریبا 17 معانی ذکر کیے ہیں جن میں سردار، دوست، آزاد کرنے والا اور محبت کرنے والا وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے معانی میں سے ایک حاکم اور "اولی باالتصرف” بھی ہے یعنی تمام امور میں سب سے زیادہ حق تصرف رکھنے والا۔

یہ بات مشہور کر دی گئی ہے کہ حدیث غدیر میں مولا سے مراد دوست ہے اور نبی ﷺفرما رہے ہیں کہ جس کا میں دوست ہوں علی اس کے دوست ہیں۔ پس اس میں کوئی اہم پیغام نہیں ہے۔ اس مضمون میں ہم ثابت کریں گے کہ حدیث غدیر میں لفظ مولا کا معنی دوست نہیں ہے بلکہ اس سے مراد حاکم اور اولی باالتصرف ہے اور پیغمبر ﷺاپنے بعد علیؑ کو امور دینی میں اپنا جانشین اور حاکم بنانے کا اعلان فرما رہے ہیں ناکہ دوستی کا اعلان۔ یہ ایک قاعدہ ہے کہ جب کسی کلام میں کوئی لفظ مشترک (ایسا لفظ جس کے ایک سے زائد معانی ہوں) استعمال ہو تو وہاں معنی مراد سمجھنے کے لیے کلام کے سیاق سباق اور حالت کلام میں موجود قرائن حالیہ پرکھے جاتے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ حدیث غدیر میں مولا سے مراد دوست نہیں کیونکہ اولا: کوئی ایسا واضح قرینہ موجود نہیں جس سے ثابت ہوکہ مولا سے مراد دوست ہے۔ ثانیاََ: ایسے عقلی و نقلی دلائل موجود ہیں کہ جن کی طرف توجہ کرنے سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ یہاں مولا سے دوست مراد لینا انتہائی نامعقول بات ہے۔

اب ہم چند قرائن ذکر کرتے ہیں : 1_آیت تبلیغ جب پیغمبر اسلام حج بجا لا کر واپسی میں خم غدیر کے مقام پہ پہنچے تو یہ آیت نازل ہوئی (يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ ۖ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ) اے رسولﷺ! پہنچا دیجئے وہ حکم جو آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا اور اگر یہ کام نہ کیا تو گویا رسالت کا کوئی کام نہ کیا اور اللہ آپ کو لوگوں کے شر سے بچائے گا بے شک اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا۔ (مائدہ-67) اس آیت میں جملہ "اگر یہ کام نہ کیا تو گویا رسالت کا کوئی کام نہ کیا” قابل توجہ ہے اس جملے کا انداز بتاتا ہے کہ کسی ایسے حکم کی تبلیغ کا کہا گیا ہے کہ جس پر کار رسالت کا انحصار ہے۔ پس اگر یہ فقط علیؑ سے دوستی کا اعلان ہوتا تو اس قدر سخت لہجہ اختیار نہ کیا جاتا۔ پس یہ کوئی ایسا کام تھا کہ اگر نہ کیا جاتا تو رسالت کی ساری محنت ضائع ہوجاتی اور اس کام سے کار رسالت کی حفاظت مدنظر تھی اور وہ تب ہے جب رسول اپنے بعد علی کو امور دینی میں حاکم بنائیں کیونکہ یہ مقصد فقط اعلان دوستی سے حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ 2جبرئیل کا بار بار نزول احتجاج طبرسی کے مطابق نبی ﷺفرماتے ہیں کہ اس دن جبرائیل مجھ پر تین بار وحی لے کر نازل ہوا۔ فرشتہ وحی کا بار بار نزول بتاتا ہے کہ یہاں دین کو علیؑ جیسے ہادی کے سپرد کرنے کا اہتمام تھا ورنہ فقط علی سے دوستی کا اعلان کرنے کے لیے جبرئیل کو بار بار خدا سے ہدایات لانے کی ضرورت نہ تھی۔ 3_خطبۂ پیغمبرﷺ پیغمبرﷺ نے ولایت علیؑ کا اعلان کرنے سے قبل ایک طویل خطبہ ارشاد فرمایا اور اسی خطبہ میں حاضرین سے یوں سوال کیا ألست اولی بکم من انفسکم کیا میں تمہاری جانوں پر تم سے زیادہ حق تصرف نہیں رکھتا؟ قالوا بلی سب نے کہا یقینا آپ کو یہ حق حاصل ہے۔ پس فورا نبی نے علی کا ہاتھ بلند کرکے فرمایا فمن کنت مولاہ فھذا علی مولاہ پس جس جس کا میں مولا اس اس کا یہ علی مولا ہے۔ اب مولا سے دوست مراد لینے والوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ اولی اور مولا کا مادہ اصلی ایک ہی ہے اب یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جب نبی نے اولی کہا تو مراد حکومت اور حق تصرف تھا کیونکہ وہاں دوستی کا معنی کرہی نہیں سکتے تو پھرجب فورا بعد مولا کہا تو اس سے دوستی کہاں سے مراد لے لی گئ؟؟؟ کیا یہ کھلا تضاد نہیں۔۔۔ ؟؟؟

یہ بھی پڑھئے:   حضرت علی بن ابی طالب اور حق شناسی

4_کفار کی مایوسی اعلان غدیر ختم ہونے کے بعد یہ آیت نازل ہوئی (الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ دِينِكُمْ۔۔۔۔۔۔(مائدہ 3) آج کے دن کفار آپ کے دین سے مایوس ہوگئے۔ کفار نے کون سی امیدیں لگا رکھی تھیں جن سے وہ آج مایوس ہوگئے۔ ان کی امید دین کے مٹ جانے کی امید تھی کیونکہ نبی کا کوئی بیٹا موجود نہ تھا جو ان کا وارث بنتا لہذا کفار نے وفات پیغمبر کے ساتھ ان کے دین کے مٹ جانے کی امیدیں لگا رکھی تھیں کیونکہ بظاہر دین کا کوئی وارث نظر نہیں آرہا تھا لیکن اعلان غدیر کے بعد خدا نے خود خبر دی کہ آج کافروں کی امیدیں ٹوٹ گئی ہیں وہ سمجھ گئے ہیں کہ اب یہ دین مٹنے والا نہیں کیونکہ نبیﷺ نے علیؑ کو اپنے بعد جانشین مقرر کرکے دین کو ولایت کے مستحکم نظام کے سپرد کردیا ہے۔ پس واضح ہوا کہ پیغمبر نے میدان غدیر میں علیؑ کو اپنا دوست نہیں بلکہ دینی امور میں اپنا جانشین بنایا۔ 5_اکمال دین گزشتہ آیت میں ناصرف خدا نے کفار کی مایوسی کی خبر دی بلکہ اکمال دین کی خوشخبری بھی کچھ یوں سنائی الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ آج کے دن تیرے دین کو مکمل کردیا تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور اسلام کو بطور دین پسند کرلیا ہے۔ پس اگر مولا سے دوست مراد تھا تو علیؑ و نبیﷺ کی دوستی اور علی ؑکی دوستی کے اعلان سے اکمال دین کا کیا تعلق؟ کیا اس دوستی کے بغیر دین ناقص تھا؟ بلکہ یہ واضح ہے کہاس وقت پیغمبر ﷺتمام احکام دین پہنچا چکے تھے لیکن اپنے بعد اپنا جانشین کسی کو نہیں بنایا تھا پس جب غدیر میں علی کو اپنا جانشین بنادیا تو خدا نے بھی فرمادیا کہ اب تیرا دین مکمل ہوگیا ہے۔ 6_حارث بن نعمان فہری پر نزول عذاب قرآن کی آیت سَأَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ (معارج1) کی شان نزول میں کئی مفسرین نے لکھا ہے کہ اعلان غدیر کے بعد حارث بن نعمان رسولﷺ کے پاس آکر کہنے لگا۔۔۔ آپ نے اپنی نبوت کا کہا ہم نے اقرار کیا اور نماز، زکواۃ حج وغیرہ جیسے تمام احکام پر عمل کیا اور اب آپ نے اپنے چچا زاد کو ہم ہر مسلط کردیا ہے کیا یہ حکم خدا کی طرف سے ہے یا تیری طرف سے؟ پیغمبرﷺ نے فرمایا یہ حکم خدا ہے تو اس نے کہا اے اللہ اگر محمد سچ کہ رہے ہیں تو مجھ پر آسمان سے عذاب نازل فرما پس فوراََ ایک پتھر آیا جس سے وہ ہلاک ہوگیا۔ پس جب اس نے کہا کہ اب آپ نے اپنے چچا زاد کو ہم ہر مسلط کردیا ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ سب سمجھ گئے تھے کہ یہ علی کو دوست نہیں بلکہ امور دینی میں ولی و حاکم بنایا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھئے:   شب قدر ہزار مہینوں سے افضل ہے!

ان کے علاوہ بھی بہت سے نقلی دلائل مقالے کا حصہ ہیں مگر طوالت سے گریز کرتے ہوئے انہی پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔ البتہ صاحبان عقل کے لیے چند عقلی دلائل بھی پیش خدمت ہیں۔ عقلی دلائل: 1_رسول خدا ص نے تقریبا ایک لاکھ بیس ہزار یا بعض روایات کے مطابق اس سے بھی زائد افراد کو میدان غدیر میں جمع فرمایا اور جو آگے جاچکے تھے انھیں بھی واپس بلوایا اور پیچھے رہ جانے والوں کا انتظار فرمایا۔ لق ودق صحرا، نہ کوئی سایہ تھا شدید گرمی کی حالت تھی روایت کے مطابق جب آپ ممبر سے اترے تو پسینے سے شرابور تھے۔ اب کوئی عقل مند بتائے کہ کیا فقط دوستی کا اعلان کرنے کے لیے اتنے جم غفیر کو گرمی میں کھڑا کرنا کوئی معقول بات ہے؟؟ جبکہ پیغمبرﷺ تو رحمۃ للعلمین ہیں کیا وہ فقط دوستی کے اعلان کے لیے لوگوں کو اس قدر مشکل میں ڈالیں گے؟ پس عقل سے کام لیا جائے تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ یقینا یہ نہایت اہم فریضہ تھا جو علی کے سپرد کیا جارہا تھا اور لوگوں کو اس لیے جمع کیا گیا تاکہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہ رہے کہ نبیﷺ اپنے بعد علیﷺ کو اپنا جانشین بناگئے ہیں۔ 2_نبی ﷺنے اعلان ولایت علیؑ کے بعد فرمایا فلیبلّغ الشاہد الغائب کہ حاضرین یہ پیغام ان لوگوں تک بھی پہنچائیں جو یہاں موجود نہیں۔ پس اگر دوستی کا اعلان ہوتا تو اس پیغام کو عام کرنے پر اتنا زور دینے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ معلوم ہوا یہ ایسا پیغام تھا جس کا ہر شخص سے تعلق تھا ہر کسی تک پہنچانے کا اس لیے فرمایا تاکہ یہ بات ہر ایک کے علم میں رہے کہ نبیﷺ کہ بعد دینی امور میں حاکمیت و سرپرستی علیؑ کی ہے۔ 3_روایات میں حضرات شیخین کا مولا علی کو بخ بخ کہ کر مبارک باد دینا بھی موجود ہے۔ اب فقط دوستی کا اعلان کوئی اتنی بڑی بات نہ تھی کہ جس پر اس جوش سے مبارکباد دی جاتی بلکہ وہ سب لوگ بھی سمجھ گئے تھے کہ علیؑ کو منصب ولایت و حکومت نصیب ہوا ہے۔ پس مذکورہ عقلی و نقلی دلائل سے واضح ہوجاتا ہے کہ حدیث غدیر میں مولا سے مراد دوست نہیں بلکہ حاکم سرپرست اور اولی بالتصرف ہے اور یہ دوستی کا اعلان نہیں بلکہ نبیﷺ کے بعد علی ؑکی دینی امور میں ولایت و حکومت کا اعلان تھا۔ والسلام علی من اتبع الھدی

Views All Time
Views All Time
4865
Views Today
Views Today
2

One thought on “لفظ "مولا” کے معنی پر تحقیق

  • 21/09/2016 at 7:16 صبح
    Permalink

    آپ ممبر سے اترے – ایسا لکھا ہے تو کیا یہ کوئی موبائل ممبر تھا ؟؟؟ اور کیا تاریخ سے ممبر کی مجودی ثابت ہے ؟؟؟؟
    جہاں تک دینی امور میں جانشین مقرر کرنا کسی حد تک سمجھ میں آتا ہے کہ ان سے صوفیا کے سلسلے ان سے منسوب ہیں
    جہاں تک حاکمیت کا تعلق ہے تو واضح اعلان نہیں کیا کہ میرے بعد علی تمھارا حاکم ہو گا
    جس سے گنجائش پیدا ہوئی کہ مسلمانوں نے باہم مشاورت سے خلیفہ چن لیا پھر حضرت علی بھی چنے گئے لیکن انیوں نے آگے خلیفہ مقرر نہیں کیا
    حضرت معاویہ نے جانشین مقرر کیا اور خلافت کو ملوکیت میں بدل دیا جس کی سزا تاریخ میں مسلمانوں بھگتی
    اگر یہ درست ہے کہ رسول اللہ صلم نے اعلان حاکمیت کیا تھا تو پھر حضرت معاویہ نے کیا غلط کیا؟؟؟ پھر تو وہ سنت پر عمل کرنے والے ہوئے
    سانحہ کربلا کی اس طرح تو نوعیت ہی بدل جائیگی
    حضرت امام حسین ع امت کے حق انتخاب کی بحالی کے لئے کھڑے ہوئے جیسا کہ حضرت حسن ع اور حضرت معاویہ کے درمیان طے پایا تھا

    Reply

Leave a Reply