نوازش، کرم، شکریہ، مہربانی – ام رباب

Print Friendly, PDF & Email

ایک شخص کسی دریا کے کنارے کھڑا تھا، پاؤں پھسلنے کے سبب وہ دریا میں جا گرا،اور ڈوبنے لگا، اچانک ایک شخص دریا میں کودا اور اسے ڈوبنے سے بچا کردریا سے نکال لایا، ہر کسی نے بچانے والے کی بہادری کی بہت تعریف کی۔اس پر وہ شخص بولا،وہ تو سب ٹھیک ہے مگر یہ بتاؤ کہ مجھے دریا میں دھکا دیاکس نے تھا ؟
سال بھر قبل کی بات ہے قمر عباس اعوان نے ایک روز ان باکس میں آ کر اعلان فرمایا”میں ایک ویب سائٹ لانچ کر رہا ہوں”میں نے کہا بہت خوشی کی بات ہے اللہ کامیاب کرے،کچھ روز بعد ویب سائٹ کا نام فائنل کر کے مجھے پھر مطلع کیا ،میں نے پھر خوش ہو کر دعائیں دیں۔جب ویب سائٹ کے لانچ ہونے میں تقریباً چند روز رہ گئے تو قمر عباس نے کہا ویب سائٹ کے لئے کچھ لکھیں۔میں نے جواب دیا کہ قمر میں نے تو آج تک کچھ نہیں لکھا۔ جس پر قمر نے میری بات پر یقین کرنے سے انکار کرتے ہوئے لکھنے پر اصرارجاری رکھا،میں نے بہت بہانے بنائے مگر قمر عباس نے ہر بات سنی ان سنی کر دی، میں نے بھی دوستی کی خاطر جذباتی ہو کر حامی بھر لی۔ تو یوں میں وہ شخص ہوں جس کا اس دریا میں پاؤں پھسلا نہیں بلکہ مجھے جان بوجھ کر دھکا دے کر دریا میں گرایا گیا ہے، سو میں نے ڈوبنے کے بجائے تیرنا سیکھنے میں عافیت سمجھی۔
ابتدا میں سوال یہ تھا کہ کیا لکھوں؟کہا گیا، کچھ بھی لکھیں ،کسی بھی موضوع پر لکھیں۔تحریر چھپنے کے شوق اور خوشی میں، میں نے یہ جاننے کی زحمت بھی نہ کی ٹیم کے ممبران کون ہیں؟مگر ادارتی ٹیم میں جب حیدر جاوید سید صاحب جیسے سینئیر صحافی کا نام پڑھا کہ وہ چیف ایڈیٹر ہیں تو گویا ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے کہ اتنے قابل لوگ ٹیم میں شامل ہیں، میری کیا اوقات،چہ پدی چہ پدی کا شوربہ،مگر پھر خیال آیا وہ ایک مصروف شخصیت ہیں ،میرا لکھا تھوڑا ہی پڑھیں گے۔اسی خوش فہمی یا غلط فہمی کے ساتھ ایک آرٹیکل لکھ کر قمر عباس کی فرمائش پوری کر دی۔ ابتدائی ادارتی ٹیم میں رضوان گورمانی ، صدیف گیلانی اور عامر حسینی سے واقف نہیں تھی۔عامر حسینی کی تحریریں اور افسانے پڑھ کر تو باقاعدہ خوف زدہ ہو گئی اور رشک و حسد میں مبتلا ہو گئی کہ اتنے اچھے لکھنے والوں کے سامنے تو بس اپنا مذاق بنوانے والی بات ہے مگر قمر کے مسلسل اصرار اور قلم کار کی ابتدائی ٹیم کے ارکان رضوان گورمانی اور سید صدیف گیلانی کی حوصلہ افزائی نے بہت تقویت دی اور کچھ نہ کچھ لکھنے کا "بے قاعدہ”سلسلہ شروع ہو گیا۔ویب سائٹ شروع ہونے کے چھے ماہ بعد قمر عباس نے ادارتی ٹیم میں شمولیت اور ٹیم کا حصہ بننے کی دعوت دی اور یوں اب میں قلم کا ر کی ادارتی ٹیم کی ایک ممبر ہوں۔
یہاں سب سینئیرز، دوستوں، نئے دوستوں اور ٹیم کے تمام ارکان نے بہت حوصلہ افزائی کی کہ تعریف، حوصلہ افزائی اور پذیرائی روح کا ایندھن ہیں۔ایک پرانے فلمی گانے کے بول یاد آئے کہ”پل بھر کے لئے کوئی ہمیں پیار کر لے جھوٹا ہی سہی”تو چاہے انہوں نے جھوٹی تعریف یا حوصلہ افزائی یا پذیرائی ہی کی مگر مجھے ایک اعتماد دیا۔میں خود کو کسی قابل نہیں سمجھتی،مجھے انجیل و قران اور ایران و توران کے حوالے دینے آتے ہیں نہ ہی ہر معاملے میں زمین آسمان کے قلابے ملانے آتے ہیں ،میں تو بالکل عام فہم زبان اور انداز میں اپنا مطمع نظر بیان کر سکتی ہوں۔شکریہ قلم کار کے تمام معزز ممبران جناب حیدر جاوید سید، جناب عامر حسینی،جناب نور درویش ،محترمہ حمیرا جبیں جیسے لکھنے والے ،محترمہ فرح رضوی جیسی اچھی شاعرہ اور مدیحہ حسن جیسی محنتی لڑکی کا، کہ ان سب اتنے پڑھے لکھے لوگوں کے سامنے میری کوئی اوقات نہیں ،ان کے ساتھ کام کرنا ہی میرے لئے سعادت ہے اور ان کی حوصلہ افزائی ہی میری عزت افزائی ہے ، ان سب کا شکریہ ادا کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں۔
ٹیم کے ابتدائی ممبران رضوان گورمانی اور صدیف گیلانی کا جو ذاتی مصروفیات اور وجوہات کی بنا پر اب ٹیم کا حصہ نہیں ہیں،خصوصی شکریہ ادا کرنا چاہوں گی کہ ابتدا میں میرا حوصلہ بڑھانے والے یہی لوگ تھے، شکریہ تو ثناء بتول کا بھی ادا کرنا چاہوں گی جو اس ٹیم کا حصہ رہی ہیں کہ یہ لڑکی اتنا اچھا لکھتی ہے کہ اس کی تحریریں پڑھ کرمیں رشک کرتی ہوں اور دعا کرتی ہوں کہ خدا مجھے بھی اتنا اچھا لکھنے کی صلاحیت اور توفیق دے۔قلم کار ٹیم کے بقیہ ساتھیوں وقاص اعوان، شہسوار حسین اور ذیشان نقوی کا بھی شکریہ اور ان کے حوصلے کی داد کہ یہ سب مجھے برداشت کرتے ہیں۔حاسدین اور حوصلہ شکنی کرنے والوں کا بھی خصوصی شکریہ کہ آپ کی حوصلہ شکنی بھی میری اور قلم کار کی حوصلہ افزائی کا باعث بنتی ہے۔اپنے چاروں بچوں اور اپنے دوست عماد قاصر کا بھی خاص طور پر شکریہ ادا کرنا چاہوں گی کہ جب بھی میرا حوصلہ ٹوٹا ان سب نے مجھے حوصلہ اور جذباتی سہارا دیااور میرا اعتماد بحال کیا۔
قلم کار کی ٹیم میں شامل ہونے کو میں ایک بڑا اعزاز سمجھتی ہوں اور اپنی زندگی کی بہت سی کامیابیوں میں اسے بھی ایک کامیابی سمجھتی ہوں۔اس موقع پر مجھے اپنے والدین کی کمی محسوس ہوئی کہ انسان کی ناکامیوں میں اس کا اپنا عمل دخل ہوتا ہے اور کامیابیوں میں والدین کا ہاتھ، خصوصاً ماں کا کہ قلم کار پر میری سب سے پہلی تحریر ماں کے حوالے سے ہی تھی۔
ٓآج قلم کار کا پہلا سال کامیابی سے گزرنے اور پہلی سالگرہ کے موقع پر میں تمام معزز ٹیم ممبرز ، خاص طور پر قمر عباس کو مبارک باد پیش کرتی ہوں اور قمر عباس اعوان کے شکریہ کے ساتھ بات ختم کرتی ہوں کہ اس دریا میں تم نے مجھے دھکا تو دے دیا ہے اب اگر کوئی بچانے کی کوشش کرے تو اسے بھی دھکا دے دینا کہ اب میں نے تیرنا سیکھ لیا ہے۔میری دعا ہے کہ اللہ قلم کار کو دن دونی اور رات چوگنی ترقی دے اور تمہیں ڈھیروں خوشیاں اور کامیابیاں عطا فرمائے۔ آمین۔

Views All Time
Views All Time
1252
Views Today
Views Today
1
mm

امِ رباب

ایک محنت کش خاتون ہیں۔ قسمت پر یقین رکھتی ہیں۔کتابیں پڑھنے کا شوق ہے مگر کہتی ہیں کہ انسانوں کو پڑھنا زیادہ معلوماتی، دل چسپ، سبق آموز اور باعمل ہے۔لکھنے کا آغاز قلم کار کے آغاز کے ساتھ ہوا۔ اپنی بات سادہ اور عام فہم انداز میں لکھتی ہیں۔ قلم کار ٹیم کا اہم حصہ ہیں۔

One thought on “نوازش، کرم، شکریہ، مہربانی – ام رباب

  • 01/05/2017 at 1:27 شام
    Permalink

    بہت دلچسپ احوال لکھا رباب دل سے نکلی دل تک ہیپہنچی بات .سادگی سے کہی بات دیرپا اثرات مرتب کرتی ہے آپ بہت اچھا لکھتی ہیں .ادارت انتظام بھی بہتعین ادا کر رہی ہیں .مبارکباد

    Reply

Leave a Reply