سیکس اور سماج : معائنے سے ملکیت تک

Print Friendly, PDF & Email

aamir hussaini newسیکس اور سماج : معائنے سے ملکیت تک کھوجی مرد کی دسترس میں آنے والی عورت

میں نے کل ہی سعید ابراہیم کی کتاب ” سیکس اور سماج ” کی وی پی پوسٹ آفس سے چھڑائی ہے-اس کتاب کو میں نے ایک رات اور دن کے کچھ حصّے کے اندر پڑھ ڈالا ہے اور کچھ وقت کے لئے میں نے سٹورٹ سچر کی کتاب ” اقبال احمد –پرآشوب دور میں ایک اجنبی نقاد اور گواہ ” کو درمیان میں چھوڑ دیا-اور جیسے ہی میں نے اس کتاب کو پڑھنا شروع کیا اور اس کتاب کا دیباچہ سامنے آیا تو مرے ذھن میں فوری معروف امریکی ادکارہ مریلین منروے کا ایک قول آیا:
“We are all born sexual creatures,thank God, but it’s a pity so many people despise and crush this natural gift.”
― Marilyn Monroe
اور لاطینی امریکہ کے طلسمی حقیقت نگاری کے بے تاج بادشاہ ادیب گیبرئیل گارشیا مارکیز کا ایک کہا مقولہ یاد آیا:
“sex is the consolation you have when you can’t have love”
― Gabriel Garcí­a Márquez
سعید ابراہیم کی کتاب ” سیکس اور سماج ” پڑھتے جائیے ، کہیں آپ کو جملے پھنسے پھنسے اور وفور سے خالی نہیں ملیں گے-اور اگر آپ کے پاس وقت ہوگا تو آپ اس کی قرآت میں کہیں بھی وقفہ آنے نہیں دیں گے-کم از کم مرا تجربہ تو یہی ہے-مریلین منروے نے جب ” سیکس ” کو ایک فطری تحفہ قرار دیتے ہوئے یہ کہا کہ بہت سارے لوگوں نے اسے مسخ کرڈالا اور کرش کرڈالا تو بہت ہی درست کہا تھا-سعید ابراہیم نے اپنی کتاب کے دیباچہ بعنوان” کتاب لکھنے کی وجہ” کے شروع میں ہی ہمیں بتایا کہ اس کتاب کی وجہ تصنیف ان کی ” بے چینی ” ہے اور وہ اس "بے چینی ” کو پاکستانی سماج کے کم و بیش ہر ایک فرد کی بے چینی قرار دیتے ہیں اور ان کی یہ بات درست ہے-میں نے ” سیکس ریوولوشن بلاگ” پہ ایک انتہائی تحقیقی مقالہ کئی سال پہلے پڑھا تھا جس میں صاحب مقالہ نے لکھا تھا کہ سیکس ایک ایسی جبلت ہے جس کو اینمل جبلت جیسی بے ساختگی اور وارفتگی کھوئے دو لاکھ سال ہوچکے ہیں-اور اب یہ جبلت اپنی فطری حالت پہ قائم نہیں رہی ہے-اور سعید ابراہیم بھی اس کتاب سیکس کے بارے میں فرد اور سماج کی نفسیات کی تشکیل کا جائزہ تاریخی اعتبار سے لیتے ہوئے ہمیں یہی بتاتے ہیں کہ انسان ابتداء میں ‘سیکس ‘ سے متعلق دوسرے جانداروں کی طرح فطری جبلت پہ قائم تھے اور پھر ایک مادر سری زمانہ آیا جس میں 5 لاکھ سال تک عورتوں نے معاشرے کی قیادت کی اور 5 لاکھ سال بعد جب پدر سری سماج کا آغاز ہوا تو نہ صرف عورت محکوم بنادی گئی بلکہ بتدریج ” سیکس ” بھی گناہ میں شمار ہوتا چلا گیا-سعید ابراہیم نے کتاب سیکس اور سماج کے اندر مسلم معاشروں خاص طور پہ ابتدائی عرب مسلم معاشرے اور پھر پاک و ہند میں مسلم معاشرت میں سیکس کے بارے میں رویوں ، خیالات ، رواج اور قوانین وغیرہ کا جائزہ لیا ہے-انہوں نے مسلم تھیالوجسٹز –مذہبی پیشواؤں کے ” فلسفہ اخلاقیات ” میں تصور جنس اور عورت بارے میں ان کے خیالات کا بھی ایک اجمالی مگر بلیغ خاکہ samajاس کتاب میں پیش کیا ہے-غزالی سے لیکر مولوی اشرف علی تھانوی تک اور جدید اسلام پسندوں میں سرسید احمد خان سے لیکر مولانا مودودی تک وہ سب کو زیر بحث لےکر آئے ہیں-انھوں نے دلائل سے ثابت کیا کہ کیسے جاگیرداری معاشرت اور اس کی قائم کردہ اخلاقیات نے نہ صرف قدامت پرستوں کو بلکہ جدیدت پسندوں اور اصلاح پسندوں کو بھی سیکس کو ایک ٹیبو بناکر پیش کرنے اور عورتوں کے بارے میں فرسودہ اور ازکار رفتہ خیالات کو ہی مذہبی خیالات بناکر پیش کرنے پہ اکسایا اور یہ برصغیر کے لوگوں کے سامنے صحت مند نظریہ سیکس پیش کرنے سے قاصر رہے-سعید ابراہیم نے اس کتاب میں سیکس کے بارے میں مفکرین اور مذہبی پیشواؤں کے خیالات کی فرسودگی اور علم و ٹیکنالوجی کی ترقی کے درمیان پائی جانے والی عدم مطابقت اور ناہمواری کو بھی صاف صاف بیان کیا ہے اور ہمارے سماج میں پائی جانے والی ” اخلاقیات ” کی فرسودگی کی وجوہات تلاش کرنے میں بھی کافی تگ و دود کی ہے-وہ کہتے ہیں کہ یہ سیکس بارے مرتاض/بیمار ذہنیت ہے جس نے یہاں کم و بیش ہر دوسرے مرد کے اعصاب پہ عورت سوار کی ہوئی ہے-
سعید ابراہیم نے سیکس اور سماج کے باہمی رشتوں پہ بات کرتے ہوئے "فحاشی ” یا اوبسینٹی کے سوال کو بھی دیکھا ہے اور وہ اس معاملے پہ بات کرتے ہوئے یہ اشارہ دے گئے ہیں کہ آج ہمارے معاشرے میں جسے فحاشی یا اوبسینٹی قرار دیا جارہا ہے ،اسے تو مغلیہ دور تک کبھی مسلم سماج کے زعماء نے بھی فحاشی خیال نہیں کیا تھا-یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پہ ہم نے حال ہی میں رحمان عباس کے ایک ناول ” نخلستان کی تلاش ” پہ فحاشی کے الزام میں قائم کئے گئے مقدمے کا فیصلہ بھی ملاحظہ کیا ہے-اس مقدمے سے رحمان عباس اس لئے بری نہیں ہوئے کہ عدالت نے مدعیہ کے الزام کو قبول کرنے سے انکار کیا بلکہ مدعیہ خود ہی اپنے الزام سے دستبردار ہوگئی اور اسے ایسا کرنے ميں 11 سال لگے-اور یہ ہندوستان میں ہوا جہاں ایک سیکولر لبرل آئین موجود ہے-اور رحمان عباس آج کل ہندوستانی سماج میں اہل دانش کو یہ بتانے میں مصروف ہیں کہ جسے آج اوبسینٹی /فحاشی کہا جارہا ہے وہ ایک اجنبی تصور ہے جسے کالونیل دور میں مسلط کیا گیا ہے-اور سعید ابراہیم نے بھی اس حوالے سے کئی فکری مغالطے دور کرنے کی کوشش کی ہے-
ایک آزاد معاشرہ جس میں سیکس ٹیبو نہ ہو اور جنس گناہ نہ ہو ایک ایسا آدرش ہے جس سے ہم ابھی کوسوں دور پڑے ہیں-ایسا معاشرہ تو نجانے کب قائم ہوگا ہمیں تو ابھی اس پہ کھل کر ،آزادی سے لکھنے کی فضا کے لئے تگ و دود کرنی ہے-
سعید ابراہیم کے قلم میں ایک کاٹ ہے اور وہ منافقت کا پردہ چاک کرنے میں کسی مصلحت کو آڑے نہیں آنے دیتے-انہوں نے سرسید ، اکبر الہ آبادی ، اشرف علی تھانوی ، اقبال ، سید مودودی سمیت کئی ایک بڑے بڑے ناموں کی زندگی کے ایسے گوشوں پہ روشنی ڈالی ہے جو ان کے بلند پایہ افکار کے انتہائی منافی ہیں اور کسی حد تک ہمیں یہ بھی باور کراتے ہیں کہ خود ایسے لوگوں کی اپنی ” سیکس لائف ” مثالی نہیں تھی اور ان کا اپنی شریک حیات سے تعلق بھی ان کے اپنے افکار سے مطابقت نہیں رکھتا تھا-سعید ابراہیم نے اس کتاب کے شروع میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ وہ اسقدر کھل کر اور ہر خوف سے ماوراء ہوکر یہ باتیں لکھنے میں کیسے قابل ہوئے؟ وہ منٹو اور احمد بشیر کو اس کا کریڈٹ دیتے ہیں-اور واقعی یہ دونوں شخصیات اس قابل ہیں کہ ان سے متاثر ہونے والا آدمی ہر خوف سے بے نیاز ہوجاتا ہے-جنسیات پہ نیاز فتح پوری نے بھی کھل کر لکھا تھا اور علی عباس جلالپوری کی کتاب ” جنسیاتی مطالعے ” بھی ایک بڑا کام تھا –اور اب سعید ابراہیم کی یہ کتاب معاصر زندگی کے بارے میں بہت ہی قابل قدر اضافہ ہے ” علم جنسیات ” کے باب میں –
سعید ابراہیم پاکستانی سماج میں مردوں کی منافقت کا پردہ چاک کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اکثر اس معاشرے کے مرد چاہے وہ مذہبی پیشوائیت کے زیر اثر ہوں یا جدیدیت ، روشن خیالی ، ماڈریٹ ازم کے علمبردار ہوں وہ ” جنسی جاگیرداری ” کے زیر اثر ہی ہوتے ہیں-سعید ابراہیم نے شہروں میں ابھرتی ہوئی مڈل کلاس کے ” جنسی رویوں اور اخلاقیات کا بھی بہت گہرائی میں جاکر جائزہ لیا ہے اور اس حوالے سے قابل قدر خیالات کو پیش کیا ہے-ان خیالات کو پڑھتے ہوئے بے اختیار نزار قبانی کی کہی ہوئی. باتیں بھی ہمیں یادآجاتی ہیں-کراچی سے شائع ہونے والے اردو کے موقر سہ ماہی جریدے ” آج ” جس کی ادارت اجمل کمال کرتے ہیں میں ابواعمش نے نزار قبانی کے چند انتہائی اہم انٹرویوز کا ترجمہ براہ راست عربی سے کیا ہے-اور ایک انٹرویو کے دوران نزار قبانی عرب مرد کی عورت کے بارے میں نفسیات سے متعلق بات کرتا ہوا یوں گویا ہوتا ہے:
"عورت ایک دن بھی عرب مرد کا خواب نہیں رہی –لیکن عورت اس کی رہن ، منّت اور سواری ضرور بنی رہی ہے-وہ ایسی کھیتی ہے جس پہ مرد کی تاریخی جاگیرداری کا عمل جاری ہے-اگرعرب عورت خواب ہوتی تو عرب معاشرہ باغ ہوتا، چاند ہوتا ، فوارہ ہوتا اور مری شاعری کی کتابوں کی ضرورت نہ رہتی”
"قبائیلیت اور جاگیرداری کی جڑیں عرب مرد کو مجبور کرتی ہیں کہ وہ عورت کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرے جیسا وہ زمین ، بیجوں،مال ، مویشی ،گھوڑوں ، پرندوں اور خرگوشوں کے ساتھ کرتا ہے-نہیں معلوم مجھے کیوں اکثر یہ احساس ہوتا ہے کہ عرب مرد اور عرب عورت کا رشتہ وہی رئیل سٹیٹ والا ہے-عورت پہ وہی کچھ منطبق ہوتا ہے جو جائیداد والے تعلق میں ہوتا ہے-جیسے معائنہ کرنا، ادائیگی کرنا اور ملکیت حاصل کرلینا”
سعید ابراہیم مردوں کا عورت اور سیکس بارے نظریات اور رویوں کی جب کھوج کرتے ہیں اور پاکستانی معاشرے میں اس کا چلن دیکھتے ہیں تو وہ بھی اسی نتیجہ پہ پہنچتے ہیں جس نتیجے پہ نزار قبانی پہنچے تھے-پاکستانی مرد اور پاکستانی عورت کے درمیان بھی دراصل ” رئیل سٹیٹ ” والا رشتہ ہی پایا جاتا ہے-” معائنہ کرنا ، ادائیگی کرنا اور ملکیت حاصل کرلینا” –
نزار قبانی نے کہا تھا کہ
"پدری نظام سے ازواجی نظام تک عورت ایک قید خانے سے دوسرے قید خانے اور ایک کھوجی مرد سے دوسرے کھوجی مرد کی طرف منتقل ہوتی رہتی ہے-”
سعید ابراہیم نے سیکس بارے معاشرے کے مرتاض رويے پہ صرف تنقید ہی نہیں کی ہے بلکہ اس کے ممکنہ حل کی جانب بھی پیش رفت کی ہے-وہ مرد و عورت پہ بے جا پابندیوں کو اٹھائے جانے اور درجہ اول سے لیکر درجہ عالیہ تک مخلوط تعلیم دلانے اور بچوں کو اپنا غلام اور ملیکت سمجھنے کی روش سے نجات پہ زور دینے اور عمر کے ایک خاص حصّے کے بعد لڑکوں اور لڑکیوں کو اپنے فیصلے خود کرنے کی آزادی دینے کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کو سماج کے جابرانہ اور مرتاض رویوں اور اعمال کے خلاف لڑنے کی ترغیب دینے پہ زور دیتے ہیں-ایک کھلا معاشرہ جس میں بیمار رویوں کی حوصلہ شکنی ہو یہ خواب ہے سعید ابراہیم کا-
آخر میں ” وبا کے دنوں میں محبت ” مارکیز کا ناول کا ایک اقتباس درج کرتا ہوں ، اس امید کے ساتھ کہ ہم ایک ” کھلے اور آزاد معاشرے ” کی تشکیل میں اپنا حصّہ سعید ابراہیم کی طرح ڈالتے رہیں گے :
“But when a woman decides to sleep with a man, there is no wall she will not scale, no fortress she will not destroy, no moral consideration she will not ignore at its very root: there is no God worth worrying about.”
― Gabriel Garcí­a Márquez, Love in the Time of Cholera
)Book under title”Sex and Society “ is published by “Nirvan Publication House”-779-2-D New Township Lahore-Pakistan.E-mail:nirvana.publicationhouse@gmail.com)

Views All Time
Views All Time
2254
Views Today
Views Today
1

4 thoughts on “سیکس اور سماج : معائنے سے ملکیت تک

  • 28/08/2016 at 7:44 صبح
    Permalink

    بہت عمدہ تبصرہ۔ میں کبھی تو سعید صاحب کا بہت بڑا فین ہوتا ہوں تو کبھی لگتا ہے ان کا ناقد ہوں بہت بڑا۔ اگر میں کہوں کہ انہیں بھی منٹو کی طرح سمجھنا مشکل ہے تو غلط نہ ہو گا۔

    Reply
  • 28/08/2016 at 8:44 صبح
    Permalink

    بہت خوبصورت تبصرہ جناب، خوش رہیں اتنی اچھی کتاب ریفر کرنے پر بہت بہت شکریہ، تبصرہ پڑھتے ہی کال ملانے لگا ہوں جی۔ ایک بار پھر شکر یہ

    Reply
  • 28/08/2016 at 9:57 صبح
    Permalink

    بہت عمدہ تجزیہ کیا آپ نے سر میرے نزدیک سعید ابراہیم صاحب کی کتاب سیکس اور سماج اب تک کے اس موضوع پہ پڑھے جانے والے ادب پہ سب سے بہترین کتاب ہے ۔

    Reply

Leave a Reply