سوشل میڈیا کے لکھاری اور اردو ویب سائٹس – ثمینہ رشید

Print Friendly, PDF & Email

روایتی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا نے جس قدر تیز رفتاری سے ایک متوازی میڈیا کے طور پہ اپنی جگہ بنائی ہے اس نے عام آدمی کو اپنے جذبات کے اظہار کا ایک مکمل پلیٹ فارم مہیا کردیا ہے۔ اب عام انسان کو کسی خبر کے سرکاری اور غیر سرکاری ذرائع کے الگ الگ نمونوں کے بجائے براہ راست خبروں تک رسائی حاصل ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ ان خبروں کے بارے میں ایک رائے بنانے اور اپنی رائے کا اظہار کرنے کے لئے بھی سوشل میڈیا نے ایک بہترین پلیٹ فارم مہیا کیا ہے۔
رائے کے اس اظہار کو ایک باقاعدہ شکل دینے کے لئے پاکستان میں کئی اردو ویب سائٹس وجود میں آئیں جنہوں نے عام لوگوں میں لکھاری ہونے کے شوق کو جلا بخشی۔
سوشل میڈیا کی ان ویب سائٹس نے ہر ایک کو لکھنے کا موقع فراہم کیا۔ ان ہی ویب سائٹس کی وجہ سے نئے لکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد سامنے آئی۔ ان میں کئی طرح کے لکھنے والے شامل تھے پروفیشنل اور سنجیدہ لکھاری، پارٹ ٹائم لکھاری، طلباء جو اپنے مسائل کو سامنے لانا چاہتے تھے، عام لوگ جو اپنے جذبات کا اظہار کرنا چاہتے تھے اور کچھ غیر سنجیدہ لکھاری بھی۔
اس پورے عمل نے جہاں عام لوگوں کو لکھنے کی ترغیب دی وہیں مقابلے کی سخت فضا نے ایک خود کار نظام بھی وضع کردیا اور اس سارے سلسلے میں وہی لکھاری ابھر کر سامنے آئے جو اس مسابقت کی فضا میں اپنے قلم کے بل پر آگے بڑھنے کے اہل تھے۔
بعض اوقات یوں بھی ہوا کہ کچھ لوگ ابتداء میں اپنے سوشل تعلقات کی وجہ سے اچھے لائیکس لے تو لیتے ہیں لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکتا اور آخر کار ایک اچھی تحریر ہی کسی کو آگے لے کر جاسکتی ہے۔
لیکن جتنے بھی لکھاری اس وقت سوشل میڈیا اور اردو ویب سائٹ کی بدولت سامنے آئے ہیں اور جنہوں نے سنجیدہ قارئین کے دلوں میں اپنی جگہ بنائی ہے یہ تمام لوگ قابلِ تحسین ہیں۔ یہ سب لکھاری اپنا وقت، محنت اور علم بغیر کسی معاوضے کے آگے منتقل کررہے ہیں۔
اور سب سے زیادہ مثبت بات جو عموما مشاہدے میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ چاہے ان لکھاریوں کے لکھنے کا انداز بے حد سادہ ہے اور مشکل الفاظ اور استعاروں کے بغیر بھی لیکن سوشل میڈیا کے لکھاریوں کے موضوعات زندگی سے قریب تر ہیں۔ ان کے موضوعات عام لوگوں اور ان کے مسائل اور جذبات کا احاطہ کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ نہ صرف منفرد ہوتے ہیں بلکہ متنوع بھی۔ سوشل میڈیا کے لکھاری بھی اسٹیج کے ان فنکاروں کی طرح ہوتے ہیں ۔ جو صرف اور صرف اپنی اچھی پرفارمنس سے اپنی آڈئینس خود پیدا کرتے ہیں ۔
اب سڑک پہ چلتا کوئی فقیر انگریزی بولتا ہو یا کسی بہت اچھے پرانے گانے کا میش آپ کے نام پہ استحصال۔ کسی غریب بچی پہ مالکوں کا ظلم ہو یا سیاستدانوں کی کوئی کوتاہی، ٹی وی پہ چلتا کوئی اشتہار زیرِ بحث ہو یا عالمی مسائل کون سا موضوع ہے جو سوشل میڈیا کی تحریروں کا موضوع نہیں۔ ادق الفاظ ، محاوروں کی بھرمار اور ثقیل اصطلاحوں کے بغیر ایک نئے طرز تحریر کی بنیاد رکھنے والا سوشل میڈیا اب اپنے قدم معاشرے میں بہت اچھی طرح جما چکا ہے۔
ابھی حال ہی میں ہونے والے مشعال خان کے اندوہناک قتل کو روایتی الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا نے زیادہ اہمیت نہ دی لیکن سوشل میڈیا پہ اٹھتی مضبوط آوازیں اور احتجاج بہت جلد رنگ لے آیا اور آخر کار نہ صرف روایتی میڈیا اس کو اہمیت دینے پہ مجبور ہوا بلکہ حکمرانوں کو بھی کھل کے اسکی مذمت کرنا پڑی۔ ورنہ شاید مشعال خان کی موت کے واقعے کو مین اسٹریم میڈیا نے منوں مٹی تلے دبا دیا ہوتا۔
یہ سوشل میڈیا کے لکھاری ہی تھے جنہوں نے اس ظلم کے خلاف قلم اٹھایا اور اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔
صرف یہی نہیں سوشل میڈیا کا ایک بہت بڑا فائدہ اردو پڑھنے کے رواج میں اضافہ بھی ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ ہم کتاب سے دور رہے ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پہلے ہمیں نئی آنے والی کتابوں کا پتہ صرف چند بک ریویوز سے ہی چلتا تھا لیکن اب کہیں کسی دوست کی فیس بک وال پہ کتابوں کا تذکرہ، کہیں کتاب کی تقریبِ روُ نمائی کی تصاویر، کہیں مفصل تبصرے اور کہیں مختصر اقتباس سے نئی آنے والی کتابوں کا نہ صرف علم ہوجاتا ہے بلکہ کتاب کے خریدنے کے رجحان میں بھی اضافہ ضرور ہوا ہے۔ اس کا ثبوت باقاعدگی سے ہونے والے بک فئیر اور لٹریچر فیسٹیول ہیں جہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی شرکت اس امر کا اظہار ہے کہ کتاب کی محبت معاشرے میں سوشل میڈیا کی بدولت واپس آرہی ہے۔
اس لئے اگر مستقبل قریب میں یہ رجحان ترویج پاتا ہے تو بلاشبہ اس کا سہرا سوشل میڈیا ، اردو ویب سائٹس اور اسکے لکھاریوں کے سر ہوگا۔ اس وقت بھی ایک عام پاکستانی جس کی پہنچ ایک سستے موبائل اور فری ڈیٹا پیکیج تک ہے۔ وہ بھی ایک ماہ میں کم از کم دو کتابوں کے برابر مواد پڑھ رہا ہے۔
اس سلسلے میں اُن ویب سائٹس کا ذکر کرنا بے جا نہ ہوگا جنہوں نے ابتدائی طور پہ اپنے وسائل، وقت، پیسہ لگا کر اردو ویب سائٹس کی بنیاد ڈالی۔ مورخ جب اردو ویب سائٹس کی تاریخ رقم کرے گا تو اس کام کی بنیاد رکھنے والے لوگوں کو ضرور خراجِ تحسین پیش کرے گا جنہوں نے اس مشکل کام کا بیڑا اٹھایا اور اپنی مسلسل محنت سے ویب سائٹس کو اس مسابقت کے وقت میں بھی کامیابی سے چلا رہے ہیں۔
بلاشبہ سوشل میڈیا کی ترویج میں اردو ویب سائٹس کا کردار ناقابل فراموش ہے اور اردو کے لئے ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
یہ قلم کار پہ میری پہلی تحریر ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ مجھے قلم کار کی پہلی سالگرہ کی خوشی میں شامل ہونے کا موقع ملا۔
بلاشبہ قلم کار کا شمار ان چند ابتدائی ویب سائٹس میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی محنت سے ایک مقام حاصل کیا ہے۔ بہت سے لکھاری قلم کار کے پلیٹ فارم سے سامنے آئے اور اس ضمن میں اپنی خدمات کے لئے قلم کار کی پوری ٹیم تحسین اور مبارکباد کی مستحق ہے۔
میری طرف سالگرہ کی مبارکباد اور نیک تمنائیں

Views All Time
Views All Time
339
Views Today
Views Today
1

Leave a Reply