جی ہاں یہ ہندوستان ہی کی تصویر ہے-سہیل انجم

Print Friendly, PDF & Email

اس ایک تصویر نے ہندوستان کی روح کو ہلا کر اور ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ کسی کو یقین نہیں آرہا کہ یہ ہندوستان ہی کی تصویر ہے۔ اس ہندوستان کی جو اکیسویں صدی میں برق رفتاری سے ترقی کی منزلیں طے کر رہا ہے۔ اس ہندوستان کی جس کے بارے میں حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ وہ بدل رہا ہے۔ آج ہر دردمند دل یہ سوال کرنے پر مجبور ہے کہ آخر اس قسم کی تصویریں کب تک دیکھنی پڑیں گی۔ لیکن شاید اس سوال کا کوئی جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ نہ حکمرانوں کے پاس نہ سماج کے ٹھیکیداروں کے پاس۔ ذرا غور کیجیے کہ اس غریب پر کیا گزری ہوگی جب مردہ بیوی کی لاش ساٹھ کلومیر دور گھر لے جانے کے لیے اسپتال نے ایمبولینس دینے سے انکار کیا ہوگا اور وہ بھی محض اس وجہ سے کہ اس غریب کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ گاڑی کا انتظام کرتا۔ اس پر کیا گزری ہوگی جب اس کو اپنی 42 سالہ بیوی کی لاش کو کمبل میں لپیٹ کر اور کندھے پر رکھ کر ننگے پاؤں تپتی سڑک پر چلنے پر مجبور ہونا پڑا ہوگا۔ اس پر کیا گزری ہوگی جب اس کی بارہ سالہ بیٹی بھی روتی بلکتی اس کے نقش قدم پر چل رہی ہوگی۔ اس پر کیا گزری ہوگی جب وہ بیوی کی لاش کا بوجھ اٹھائے اٹھائے تھک جاتا اور اسے زمین پر رکھ کر سستانے لگتا ۔ اس پر کیا گزری ہوگی جب اس نے دوبارہ بیوی کی لاش اٹھاکر کندھے پر رکھی ہوگی اور اپنی بیٹی سے کہا ہوگا کہ بیٹی روؤ نہیں چلو تمھاری ماں کا انتم سنسکار بھی کرنا ہوگا۔
وہ بیوی جو ازدواجی رشتے میں منسلک ہونے کے بعد سے موت سے رشتہ جوڑنے سے پہلے تک اپنے شوہر اور بیٹی کا خاندانی بوجھ اٹھاتی رہی، اسی بیوی کی لاش کو گھر لے جانے کے لیے اس کا شوہر کالا ہانڈی اڑیسہ کا دینا مانجھی کتنا مجبور ہوا ہوگا، تصور کرکے روح لرز جاتی ہے۔ مجبوری انسان سے کیا نہیں کراتی۔ جب اسپتال کے عملہ نے اس کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کر دیا تو اس نے ایک ایسا فیصلہ کیا جو شاید آج تک کسی نے نہ کیا ہو۔ لیکن کیا کرتا۔ اس کے سامنے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ اسے اس سماج کو آئینہ دکھانا ہوگا جو خود کو ترقی یافتہ اور مہذب کہتا ہے۔ جس نے دنیاوی مصائب کو شکست دے دی ہے۔ یہ سوچ کر کانپ جانا پڑتا ہے کہ وہ شخص دس کلومیٹر تک اپنی بیوی کی لاش کندھے پر رکھ کر پیدل چلتا رہا۔ وہ تو بھلا ہو ان مقامی صحافیوں کا جنھوں نے اسے دیکھ لیا اور اس واقعہ کی اطلاع متعلقہ ڈی ایم کو دے دی۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ انھوں نے اس کی تصویر لے کر اسے سوشل میڈیا پر ڈال دیا۔ وہ صحافی اس کے لیے رحمت کے فرشتے بن کر آئے ورنہ کیا پتا اسے ساٹھ کلومیٹر تک اس بوجھ کو اٹھانا ہی پڑتا۔ جب ڈی ایم کو اس کی اطلاع ملی تو انھوں نے اپنے ماتحتوں کو ایمبو لینس فراہم کرنے کا حکم دیا اور پھر تھوڑی دیر میں ایک ایمبولینس آئی جو لاش اور مذکورہ شخص کو لے کر اس کے گاؤں گئی۔
بظاہر یہاں یہ بات ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن نہیں بات ختم نہیں ہوئی بلکہ بات شروع ہوئی ہے۔ ایک ایسے ہندوستان کی جہاں آج بھی غریبی نے اپنے پاؤں جما رکھے ہیں۔ جہاں انسانیت کے ساتھ کھلم کھلا کھلواڑ کیا جاتا ہے۔ جہاں انسان تو بستے ہیں لیکن ان کے سینے میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ جن کے دل مردہ اور ضمیر بے حس ہو چکے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو اسپتال کے ذمہ داران ایمبولینس کیوں نہیں دیتے۔ جبکہ اس صورت میں کہ ابھی چند روز قبل ہی ریاستی حکومت نے غریب افراد کے لیے مفت ایمبولینس سروس اسکیم شروع کی ہے۔ اسپتال کے عملہ نے انسانیت کے اصولوں کی بھی خلاف ورزی کی اور حکومت کی اسکیم کی بھی دھجیاں اڑائیں۔ حکومت کے اہلکاروں کی جانب سے اس واقعہ کی جانچ کا حکم دے دیا گیا ہے۔ لیکن اس سے کیا ہوگا۔ جانچ چلتی رہے گی اور چلتی ہی رہے گی۔ اگر اس نے کسی کو قصوروار گردانا بھی تو اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی اور اگر ہوئی بھی تو کیا ہوگا۔ کیا انسانیت کو شرمسار کرنے والے اس واقعہ میں کوئی تبدیلی آجائے گی۔ جی نہیں۔ بلکہ ہمارے مردہ ضمیر کے پیش نظر یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ اس قسم کے واقعات ہوتے رہیں گے۔ نہ سماج کا ضمیر بیدار ہوگا اور نہ ہی غریبوں کے حالات بدلیں گے۔
ضلع کالاہانڈی ہی کا اب ایک دوسرا واقعہ بھی ملاحظہ فرمالیں۔ یہ بھی ایک لاش سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک اسپتال کے پاس وہاں کے کچھ ملازم ایک لاش کے پاس کھڑے ہیں۔ کچھ لوگ اس کی ہڈیاں توڑ رہے ہیں۔ ہڈیاں توڑنے کے بعد انھوں نے لاش کو ایک پرانی چادر میں گٹھری کی مانند باندھا اور ایک بانس میں رسی سے باندھ کر لے کر چلتے بنے۔ بالکل اسی طرح جس طرح گاؤوں میں خنزیر کو رسیوں سے باندھ کر بانس سے لٹکا دیا جاتا ہے اور دو افراد آگے پیچھے اسے کندھے پر رکھ کر لے جاتے ہیں۔ یہ لاش ایک 80 سالہ بیوہ سلمانی بہیرا کی ہے۔ بالاسور ضلع کے سورو ریلوے اسٹیشن پر ایک مال گاڑی اس کے اوپر سے گزر گئی تھی۔ اسے مقامی اسپتال میں لے جایا گیا جہاں اسے مردہ قرار دے دیا گیا۔ اس واقعہ سے گورنمنٹ ریلوے پولیس کو مطلع کیا گیا تھا لیکن وہ بارہ گھنٹے کے بعد پہنچی تھی۔ اسے بالاسور ضلع اسپتال پوسٹ مارٹم کے لیے لے جانا تھا لیکن کوئی ایمبولینس نہیں تھی۔ لیکن بہر حال کسی طرح اسے اسپتال لے جایا گیا۔ سورو کے اے سی پی اسسٹنٹ انسپکٹر پرتاپ رودر مشرا کے مطابق انھوں نے ایک آٹو رکشا والے سے اس لاش کو ریلوے اسٹیشن لے جانے کو کہا تاکہ اسے بذریعہ ٹرین بالاسور بھیجا جا سکے جو کہ وہاں سے تیس کلومیٹر دور ہے۔ لیکن آٹو ڈرائیور نے ساڑھے تین ہزار وپے مانگے جبکہ وہ لوگ صرف ایک ہزار دے سکتے تھے۔ اس کے بعد مشرا نے کوئی صورت نظر نہ آنے پر اسپتال کے چپراسیوں سے کہا کہ وہ لاش کو لے چلیں۔ موت ہونے کے بعد کافی تاخیر ہو جانے کی وجہ سے لاش اکڑ گئی تھی۔ جس کی وجہ سے اسے ایک چادر میں باندھنا مشکل ہو رہا تھا۔ لہٰذا انھوں نے کمر کے نیچے سے ہڈیاں توڑیں اور پھر اسے بانس سے باندھ کر اسٹیشن کی طرف لے کر چلتے بنے جو کہ وہاں سے دو کلومیٹر دور تھا۔ پھر اسے بذریعہ ٹرین بالاسور بھیجا گیا۔ بیہرہ کے ساٹھ سالہ بیٹے رویندر بریک نے جب اپنی ماں کے ساتھ یہ سلوک دیکھا تو وہ دنگ رہ گیا، صدمے سے دوچار ہو گیا۔ اس کا فوری رد عمل یہ تھا کہ ان لوگوں میں ذرا سی بھی تو انسانیت ہونی چاہیے۔ کم از کم انھیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ میں نے شروع میں سوچا کہ کیس کر دوں پھر خیال آیا کہ میری شکایت کون سنے گا۔ البتہ ریاستی انسانی حقوق کمیشن نے اس واقعہ پر از خود کارروائی کرتے ہوئے جی آر پی کے انسپکٹر جنرل اور بالاسور کے ضلع کلکٹر کو نوٹس جاری کیے ہیں اور ان سے کہا ہے کہ وہ اس واقعہ کی جانچ کریں اور چار ہفتے کے اندر اپنی رپورٹ داخل کریں۔
ادھر کالا ہانڈی کی ضلع انتظامیہ نے دانا مانجھی کو لاش لے جانے کے لیے گاڑی فراہم نہ کرنے کے واقعہ کی جانچ کا حکم دیا اور فوراً جانچ بھی ہو گئی اور اس کی رپورٹ میں اسپتال کے عملہ کو کلین چٹ بھی دے دی گئی ہے یعنی اس معاملے میں اس کا کوئی قصور نہیں تھا۔ ظاہر ہے یہ دونوں واقعات غریبوں کے ساتھ پیش آئے ہیں اس لیے ان میں کوئی کارروائی نہیں ہوگی نہ ہی کسی کو قصوروار ٹھہرایا جائے گا۔ قصور وار قرار دیے جائیں گے تو متاثرین ہی۔ یہی سب کچھ آزادی کے بعد ہوتا آیا ہے اور امکان ہے کہ آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔ غریبوں کے حالات نہ پہلے بدلے تھے نہ آگے بدلیں گے۔ خواہ دیش کتنا ہی کیوں نہ بدل جائے۔

یہ بھی پڑھئے:   میرا ٹھکانہ مجھے دنیا میں بنا دو

urdutahzeeb.com

Views All Time
Views All Time
395
Views Today
Views Today
1

Leave a Reply