05/10/2025 10:05 صبح

اس راہِ شوق میں میرے ناتجربہ ِشناس

سُن اے حکیمِ ملت و پیغمبرِ نجات
میرے دیارِ قلب میں کعبہ نہ سومنات

اِک پیشہ عشق تھا سو عوّض مانگ مانگ کر
رُسوا اُسے بھی کر گئی سوداگروں کی ذات

ڈرتا ہوں یوں کہ سچ ہی نکلتے ہیں پیش تر
اس کاروبارِ شوق میں دل کے توّہِمَات

محویّتِ نشاط میں قُربت کے سو قَرن
ٹوٹی ہوئی رگوں سے جدائی کی ایک رات

تیرے غموں سے ایک بڑا فائدہ ہوا
ہم نے سمیٹ لی دلِ مضطر میں کائنات

اس راہِ شوق میں میرے ناتجربہ ِشناس
غیروں سے ڈر نہ ڈر مگر اپنوں سے احتیاط. کلام! مصطفیٰ زیدی (انتخاب! عظمیٰ حسینی)