26ویں آئینی ترمیم اور سرائیکی صوبہ کے لئے قرارداد

Print Friendly, PDF & Email

قومی اسمبلی نے سوموار کے روز 288ووٹوں سے محسن داوڑ کے پیش کردہ آئینی بل کو منظور کرتے ہوئے خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی علاقوں کیلئے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کی منظوری دیدی۔ 26ویں آئینی ترمیم متفقہ طور پر منظور کی گئی۔ ترمیمی بل اب سینیٹ میں پیش کیا جائے گا۔ 
اس آئینی ترمیم سے سابق قبائلی علاقوں کی قومی اسمبلی میں 6کی بجائے 12نشستیں ہوں گی (یاد رہے کہ 2002ء میں یہ نشستیں 12تھیں پھر 17ویں آئینی ترمیم میں انہیں 6کر دیاگیا) جبکہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں ان اضلاع کی نشستیں 24ہوں گی۔ قبل ازیں 16نشستوں کیلئے انتخابی شیڈول جاری کیا گیا تھا۔
سابق قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام اور اب 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے ان علاقوں کے باشندوں کو قومی اور صوبائی اسمبلی میں مؤثر نمائندگی دینے کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ گھٹن اور کالے قوانین کی دہشت کے دن ختم ہوئے عوام کو ان کا حق مل گیا۔ 
چند مٙلکوں کی بجائے فرد کے انفرادی حقوق کی بحالی کی طرف پیش قدمی تعمیر وترقی اور فہمی ارتقا کے نئے سفر کی بنیاد رکھے گی۔ سیاسی جماعتیں بھی براہ راست فرد تک رابطہ کرکے اپنے پروگرام سے آگاہ کر پائیں گی۔
ایف سی آرکے کالے قانون کا عذاب سہتے کئی نسلیں شہر خموشاں میں جا سوئیں۔ بدقسمتی سے ان علاقوں کو ہمہ قسم کے جرائم پیشہ اور انتہا پسندوں نے بھی محفوظ ٹھکانوں کے طور پر استعمال کیا اور ماضی قریب میں تو بعض مسلح گروہوں نے تو ذیلی ریاستیں قائم کر رکھی تھیں۔ 
سرکاری اہلکار اور افسر تو مان ہی نہیں تھے لیوی کا ایک عام اہلکار سفید پوش شہری سے جو برتاؤ کرتا تھا وہ بھی شرمناک تھا۔

 

سوموار کے دن جو 26ویں آئینی ترمیم منظور ہوئی اس سے اس امر کی بھی تصدیق ہوئی کہ پاکستانی فیڈریشن کی تمام اقوام کی نمائندہ جماعتیں سابق قبائلی علاقوں کے بھائیوں بہنوں کو ان کے بنیادی حقوق دلوانے کیلئے متفق ومتحد تھے۔ آئینی ترمیم کو اتفاق رائے سے پاس کروانے کیلئے دو ارکان اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر کی کوششوں کو تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ دونوں ارکان قومی اسمبلی نے انتخابی مہم کے دوران اپنے لوگوں سے جو وعدے کئے تھے ان میں سے سب سے اہم اور بڑا وعدہ اگلے روز پورا ہوگیا۔ 
وزیراعظم کا یہ کہنا درست ہے کہ سابق قبائلی علاقوں کی تعمیر وترقی کیلئے دوسرے تین صوبوں کو اپنا حصہ ڈالنا چاہئے۔ انہوں نے صوبوں سے این ایف سی ایوارڈ کا تین تین فیصد ان علاقوں کیلئے دینے کی اپیل کی ہے جو بجاطور پر درست ہے۔ سابق قبائلی علاقوں کے بہن بھائیوں کا احساس محرومی دور کرنے اور کم وقت میں ترقی کے زیادہ اہداف حاصل کرنے کیلئے اگر پارلیمان مشترکہ طور پر معاشی پیکج کی منظوری دے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ 
دیرآید درست آید کے مصداق سہی سابق قبائلی علاقوں کے عوام کی پرعزم جدوجہد اور حقوق کا اعتراف تاریخ ساز فیصلہ ہے۔

یہ بھی پڑھئے:   اعلان صوبہ پوٹھوہار

سوموار کے روز ہی پنجاب میں سرائیکی بولنے والے تین ڈویژنوں بہاولپور‘ ملتان اور ڈی جی خان پر مشتمل نیا صوبہ بنانے کی قرارداد بھی منظور ہوئی۔ نون لیگ اور ق لیگ نے اس قرارداد کی مخالفت کی جبکہ پی پی پی اور تحریک انصاف سمیت دیگر جماعتوں نے تائید کی۔ نون لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب کہتی ہیں پنجاب میں نئے صوبے کے قیام کی قرارداد آئی ایم ایف سے ہوئی حکومتی ڈیل سے توجہ ہٹانے کا ڈرامہ ہے جبکہ ق لیگ کے مالکان اپنے ایک عزیز کی علاقائی سیاست کے ہاتھوں مجبور ہیں۔

 
اس قرارداد کی منظوری اپنی جگہ اہم ہے اور اس سلسلے میں خصوصی کمیٹی کے قیام کی تحریک کی منظوری بھی خوش آئند ہے۔ قومی اسمبلی کی 56 اور صوبائی اسمبلی کی 120نشستیں ہوں گی
اس نئے صوبے میں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ دو اہم باتوں کو اس قرارداد میں نظرانداز کیا گیا اولاً یہ کہ خود سرائیکی عوام کیا چاہتے ہیں اور ثانیاً یہ کہ تین ڈویژنوں پر مشتمل صوبہ ہی کیوں۔ اسی طرح قرارداد میں لفظ جنوبی پنجاب صوبہ لکھا گیا‘ جنوبی پنجاب صوبہ کا تعارف سرائیکی وسیب کے لوگوں کیلئے کبھی بھی قابل قبول نہیں رہا۔
سرائیکی عوام انتظامی یا لسانی بنیادوں پر پنجاب کی تقسیم کا مطالبہ کرتے تھے نا اب کرتے ہیں۔ سرائیکی قومی تحریک کے آغاز سے اب تک یہی کہا جا رہا ہے کہ پاکستانی فیڈریشن کی پانچ قوموں میں سے چار پنجابی‘ پشتون‘ بلوچ اور سندھی اپنی قومی شناخت پر صوبائی اکائی کا درجہ رکھتے ہیں جبکہ بدقسمتی سے سرائیکی قوم اپنی قومی وحدت اور صوبہ کے حق سے محروم چلی آرہی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ سرائیکی وسیب کے عوام اپنی قومی شناخت پر مشتمل جس صوبائی یونٹ کی بات کرتے ہیں وہ ڈیرہ اسماعیل خان وٹانک سے صادق آباد تک کے ان علاقوں پر مشتمل ہے جو سرائیکی بولنے والوں کی قدیم علاقائی تاریخ کاحصہ ہیں۔
نون لیگ اور مسلم لیگ (ق) نے سوموار کے روز قومی اسمبلی میں سرائیکی دشمن رویہ اپنا کر وسیب میں ایک خاص طبقے کے ایک حصے کی ہمدردی تو حاصل کرلی لیکن اس کا سیاسی خمیازہ دونوں جماعتوں کو مستقبل میں بھگتنا پڑے گا۔ 

یہ بھی پڑھئے:   فرار کب تک؟-خورشید ندیم


نئے صوبے کے قیام کی تحریک کی نون لیگ کی جانب سے مخالفت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مہاراجہ آف جاتی امراء کا خاندان یہ سمجھتا ہے کہ صوبہ پنجاب ان کی ملکیتی ریاست ہے۔ 
ق لیگ جس نے 2002ء سے 2008ء تک نئے صوبے کے قیام کی حمایت کی، اپنے سابقہ موقف سے صرف ایک رشتہ دار ایم این اے کی خوشنودی کیلئے پیچھے ہٹ گئی۔ بہاولپور سے یہ ایم این اے ان دنوں وفاقی وزیر بھی ہیں اورچند پرانے اور ایک حالیہ واقعہ کے حوالے سے ان پر یہ الزام بھی لگ رہا ہے کہ وہ سرائیکی وسیب میں نسلی فسادات کی راہ ہموار کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں۔ 
آخری بات یہ ہے کہ اس حوالے سے جو بھی خصوصی کمیٹی قائم ہو وہ جناب فرحت اللہ بابر کی سربراہی میں بننے والے ماضی کی ایک کمیٹی کی رپورٹ کو بھی مدنظر رکھے اور سرائیکی قومی تحریک کے اسٹیک ہولڈروں سے بھی مذاکرات کرے تاکہ نئے صوبے کی تشکیل کے مراحل پُرامن طور پر طے ہوسکیں۔

Views All Time
Views All Time
605
Views Today
Views Today
1

Leave a Reply