ادارتی پالیسی، ہدایات اور چند گزارشات

Print Friendly, PDF & Email

ہم کسی تعصب و بخل کا شکار ہوئے بغیر ہر وہ تحریر شائع کریں گے جو علمی، سیاسی، تاریخی، معاشرتی و ادبی موضوعات پر ہو۔ البتہ ہم اس امر کی امید کریں گے کہ لکھنے والے ذاتی و دیگر ہمہ قسم کے تعصبات کی سطح سے بلند ہو کر متوازن انداز میں اپنی تحریریں لکھیں گے۔
تحریر کم از کم 600 الفاظ پر مشتمل ہو۔ عموماََ 600 سے 1500 الفاظ تک کی تحریر ایک مکمل تحریر ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ لکھنے کا شوق رکھتے ہیں۔ لیکن تحریر کو 600 سے بھی کم الفاظ میں سمیٹ دیتے ہیں۔ ان سے گزارش ہے کہ تحریر کو کم از کم 600 الفاظ میں لکھیں۔ ان سے کم الفاظ کی تحریر ہم قلم کار پر شائع کرنے سے قاصر ہیں۔
قلم کار کو تمام تحریریں ان پیج فارمیٹ ، یونیکوڈ یا مائیکروسافٹ ورڈ میں تحریر کر کے بھیجی جا سکتی ہیں۔
قلم کار تمام وہ تحریریں پہلی فرصت میں شائع کرنے کی کوشش کرتا ہے جو پہلے کسی بھی آن لائن نیوز پیپریا ویب سائٹ پر شائع نہ ہوئی ہوں۔ اور ادارے کی حتیٰ الامکان کوشش ہوتی ہے کہ پہلے سے شائع شدہ تحریروں کو شائع نہ کرے۔ برائے مہربانی پہلے سے شائع شدہ تحریریں بھیجنے سے گریز کریں۔ ایسی تحریروں کو ادارتی ٹیم رد کر سکتی ہے۔ بعض اوقات مصنف تحریر اپنی فیس بک وال پر لگا دیتے ہیں اس کے بعد ہمیں بھیج دیتے ہیں۔ ایسا کرنے سے گریز کریں۔ اگر آپ تحریر اپنی فیس بک وال پر لگانا ہی چاہتے ہیں تو قلم کار پر شائع ہونےکے بعد ایسا کریں۔ پہلے فیس بک پر شائع کرنے کی صورت میں بھی تحریر رد کی جاسکتی ہے۔
قلم کار پر لکھنے والے تمام قلم کاروں کو اپنی شناخت ادارے کو فراہم کرنا ضروری ہے۔ لیکن آپ کی ذاتی خواہش پر ہم آپ کی شناخت کو خفیہ رکھ سکتے ہیں۔ آپ بے شک اپنے قلمی نام سے تحریریں بھیجیں لیکن ادارے کو اپنی اصلی شناخت فراہم کرنا لازم ہو گی۔ ورنہ ہم تحریرلگانے سے قاصر ہوں گے۔ تحریر کے ساتھ ایک عدد تصویر لازمی بھیجیں اور جو احباب ہمیں تحریریں فیس بک پیج کے انباکس میں بھیجتے ہیں وہ کوشش کریں کہ ہمیں ای میل کریں۔ بعض اوقات وہاں بھیجی گئی تحریر انباکس میں بھیجے گئے پیغامات کی کثرت وجہ سےشائع ہونے سے رہ جاتی ہے۔ اور جن لوگوں کے پاس ای میل کی سہولت میسر نہ ہو وہ اگر انباکس میں بھیجیں تو اپنا ای میل ایڈریس اور تصویر بھی ساتھ لازمی دیں۔ جو حضرات پہلے سے مختلف اخبارات میں کالم لکھ رہے ہیں وہ تصویر کی جگہ اپنا لوگو بھیجتے ہیں۔ قلم کار کی ادارتی ٹیم کے فیصلے کے مطابق ہم کسی بھی کالم نگار کا لوگو تحریر کے ساتھ شائع نہیں کریں گے۔ کالم نگار اپنی تصویر تحریر کے ساتھ بھیجیں۔
قلم کار پر کوئی بھی تحریر شائع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنے کا اختیار صرف اور صرف ادارتی ٹیم کو حاصل ہے۔ برائے مہربانی اگر ادارتی ٹیم آپ کی تحریر شائع نہیں کرتی تو اسے شائع کرنے کے لئے ضد نہ کریں۔ اگر کوئی تحریر شائع ہو جاتی ہے لیکن ادارتی ٹیم بعد میں اسے ‘قلم کار’ ویب سائٹ کے لئے نامناسب خیال کرتی ہے تو ادارہ کو مکمل اختیار ہے کہ وہ اس تحریر کو ویب سائٹ سے ہٹا دے۔
کیونکہ وسائل محدود ہیں اور تحریریں لکھنے والے کافی زیادہ ہیں اس لئے تحریر کی اشاعت کے لئے وقت درکار ہوتا ہے۔ اکثر تحریر 48 سے 72 گھنٹوں میں شائع کر دی جاتی ہے۔ برائے مہربانی تحریر بھیجنے کے تھوڑی دیر بعد ہی اس کی اشاعت کے لئے ضد نہ شروع کر دیا کریں۔ تحریر ایک ضابطہ کے تحت شائع کی جاتی ہے جس میں بہرحال وقت لگتا ہے۔ لیکن ادارہ کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ حالاتِ حاضرہ پر لکھی گئی تحریر کو پہلی فرصت میں شائع کردے۔
آپ کی تحریر کو قابلِ اشاعت بنانے کے لئے ادارتی ٹیم آپ کی تحریر میں قطع و برید کا مکمل اختیار رکھتی ہے۔
تحریر کو لکھ کر بھیجنے سے پہلے خود اس کی پروف ریڈنگ کریں۔ تاکہ تحریر میں موجود غلطیاں آپ درست کر سکیں۔ پھر ہمیں تحریر بھیجیں۔ بعض اوقات بنا پروف ریڈنگ کے بھیجی جانے والی تحریریں معیاری تحریریں ہونےکے باوجودفقط اس لئے شائع نہیں کی جاسکتیں کہ اس میں غلطیاں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ آپ اگر اپنی تحریر کو اتنی اہمیت نہیں دیں گے کہ اسے درست کمپوز کر کے بھیجیں تو کوئی دوسرا بھی اسے اہمیت نہیں دے گا۔
اکثر دوست املا کی بنیادی غلطیاں کرتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ درست املا کےساتھ تحریر بھیجیں۔جیسا کہ
‘کے ‘اور ‘کہ ‘میں فرق نہیں کر پاتے۔ دونوں مختلف الفاظ ہیں۔
صحیح لفظ ‘نہیں’ ہے جو کہ ہم انکار کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ بعض لوگ اس کی جگہ عربی لفظ ‘نہی’ لکھ دیتے ہیں۔
چنانچہ، کیونکہ، اگرچہ یہ الفاظ ایسے ہی درست ہیں۔ چنانچے، اگرچے، کیونکے لکھنا غلط ہے۔
‘صحیح’ کی املا اسی طرح درست ہے۔ ‘سہی’ اور ‘صحیح’ میں فرق ہے۔ اس کا خیال رکھیں۔ اسی طرح درست لفظ ‘تصحیح’ ہے تصیح نہیں۔

‘نقطہ’ اور ‘نکتہ’ دو الگ الگ الفاظ ہیں۔ ان میں فرق رکھیئے۔
مظبوط غلط لفظ ہے۔ اسے مضبوط لکھیے۔ اسی طرح لفظ ‘واضع’ درست نہیں ہے صحیح املا ‘ واضح’ ہے۔

کچھ لوگ اپنی تحریر میں ‘ہ’ اور ‘ھ’ کا استعمال غلط کرتے ہیں۔ اور اکثر یہ استعمال ‘ہے’ ‘ہیں’ میں ہوتا ہے۔ ‘ہے’ درست لفظ ہے اسے اسی طرح لکھیں نا کہ ‘ھے’۔

اسی طرح وہ لوگ جو یونی کوڈ میں تحریر لکھتے ہیں ‘کئی’ کی جگہ’ کئ’ اور’ گئی’ کی جگہ’ گئ’ لکھتے ہیں۔ اور ان دونوں کے آخر میں آنے والی ‘ی’ نہیں لکھتے۔ اس کا بھی خیال رکھیں۔
کچھ دوست چند الفاظ کو ملا کر لکھنے کی عادت رکھتے ہیں۔ جیسے آئینگے، جائینگے وغیرہ۔ انہیں الگ الگ لکھیں جیسے آئیں گے، جائیں گے۔ اسی طرح انکی ،آپکا ،جسکے وغیرہ لکھتے ہیں۔ انہیں بھی الگ الگ لکھیں جیسے ان کی، آپ کا، جس کے۔

اسی طرح کچھ لوگ رموزِ اوقاف (Punctuation) کا غلط استعمال بے تحاشہ کرتے ہیں۔ جملہ مکمل ہونے کےبعد  فل سٹاپ اور سوالیہ نشان کی ایک لمبی قطار بنا دیتے ہیں یا غلط جگہ پر غلط رموزِ اوقاف کا استعمال کرتے ہیں۔ وقفہ کی علامت  کوما’،’ کا بے جا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔  برائے مہربانی اس سے گریز کریں۔ اس کے علاوہ کچھ لوگ سرے سے رموزِ اوقاف لگانا پسند ہی نہیں کرتے۔ تحریر پڑھنے والے کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ کہاں جملہ ختم ہو رہا ہے اور کہاں نہیں۔
جو لوگ اپنی تحریروں میں قرآنی آیات و احادیث لکھتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ وہ آیت یا حدیث کا صرف ترجمہ اور ساتھ حوالہ لکھیں عربی متن نہ لکھیں۔ کیونکہ تحریر نے شائع ہونے کے لئے مختلف مراحل سے گزرنا ہوتا ہے اور فونٹ کی تبدیلیوں کی وجہ سے شائع ہونے پر اعراب میں تبدیلی واقع ہو جاتی ہے۔ اور ویب سائٹ پر صحیح پڑھا نہیں جا سکتا۔ اس لئے عربی لکھنے سے گریز کریں۔ اسی طرح جو احباب اپنی تحریر میں الفاظ پر اعراب لگانےکی عادت کا شکار ہیں وہ بھی اعراب لگانے سے پرہیز کریں۔
قلم کار پر شائع ہونے والی تحاریر مصنفین کی رائے ہوتی ہیں نہ کہ ادارے کی۔ ان سے ادارے کا اور قارئین کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ کو کسی بھی تحریر سے اختلاف ہے تو شائستگی سے اس سے اختلاف کریں اور جواب دینا چاہیں تو تحریر لکھ کر قلم کار کو ارسال کریں۔ قلم کار کو ایسی تحریر شائع کر کے خوشی ہوگی۔ لیکن خیال رہے کہ تحریر مناظرے کے بجائے مکالمہ ہو۔
اپنی تحاریر ہمیں اس ای میل ایڈریس پر ارسال کریں
articles@qalamkar.pk