غمِ روزگار کی ماری زندگی – ڈاکٹر لال خان

Print Friendly, PDF & Email
بیروزگاری جتنا درد ناک عذاب ہے اس کا اندازہ سب سے زیادہ انہی کو ہو سکتا ہے جو اس اذیت سے دوچار ہیں۔ جہاں ان کو معاشرہ دھتکارتاہے وہاں ہررشتہ ہرناتا ہرتعلق ان کو ایک ایسے احساس کمتری میں مبتلا کردیتا ہے جو ان کی زندگی کو ویران اور بیگانہ بنا دیتا ہے۔ ایسی کیفیت میں ترقی اور ملکی بقا کی باتیں ان کے دل ودماغ پرنشترکی طرح چبھتی ہیں۔ حکمرانوں اورسیاست سے نفرت بڑھ جاتی ہے۔ یہ ترقی ان کے لیے ایک گالی،ایک لعنت بن کررہ جاتی ہے۔وہ زندگی سے بیزاربھی ہوجاتے ہیں۔ بیروزگاری کا یہ ناسور پھرخودکش دہشت گرد بھی پیداکرتا ہے، منشیات کے بیمار بھی۔رجعتی جنون کے لیے بھرتیاں بھی یہیں سے ہوتی ہیں اور جوانیاں جرائم میں برباد بھی اسی سے ہوتی ہیں۔
12فروری کو وزیرخزانہ اسحاق ڈارنے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ2018-2019ء میں پاکستان کی شرح نمو 7 فیصدتک چلی جائے گی جو آج کے عالمی سرمایہ دارانہ بحران میں ایک بڑی ترقی گردانی جاتی ہے۔لیکن اس نظام کے بحران کا المیہ یہ ہے کہ اس کی معاشی ترقی کی رفتاراوراضافے عام انسانوں کے سماج کی تنزلی کا ہی باعث بنتی ہے۔پچھلے30 سالوں میں پاکستان میں روزگار کے حصول اورفراہمی میں بہت بڑی تنزلی واقع ہوئی ہے۔یہاں آبادی میں اضافے سے کہیں زیادہ بیروزگاروں میں اضافہ ہورہاہے۔نیم سرکاری ذرائع کے مطابق ہرسال پاکستان میں 20 لاکھ نوجوان لیبر کی منڈی میں داخل ہوتے ہیں اوران میںسے صرف5فیصد کو ہی کوئی روزگار ملتا ہے۔حکومتی اعدادوشمارکے مطابق پاکستان میں5.2فیصد بیروزگاری ہے،یہ شماریات نہ صرف مضحکہ خیز ہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں بیروزگاروں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے 
مترادف ہیں جو اس بیماری اورذلت میں مبتلا ہیں۔نیم سرکاری اورغیر سرکاری معیشت دانوں کے مطابق یہ تعداد آبادی کا 15 فیصدسے زائد ہے۔لیکن حقیقت میںیہ بھی ایک قدامت پرستانہ عدد ہی ہے۔ اگر ہم حکومت کے اعدادوشمار کے ادارے کے اپنے نتائج اخذ کرنے کے طریقہ کارکاجائزہ لیں تو اس فیڈرل بیورو آف سٹیٹسٹکس کے مطابق بیروزگاروں میںصرف ان کو شمار کیا جاتا ہے جنہوں نے روزگار کے لیے درخواستیں دیں اوران کو روزگارحاصل نہیں ہوسکا۔جبکہ لاکھوں مزدوروں کو اس عرصے میں برطرف کیا جاتا رہا ہے اور دیہی اور مضافاتی علاقوں میں لاکھوں ایسے بھی ہیں جن کو کوئی عرضی دینے تک کا موقعہ بھی حاصل نہیں ہوسکا۔لیکن سرکاری اعدادوشمار میں60سا ل سے اوپرعمرکے افراد کو بھی برسرروزگار آبادی میں گناجاتاہے۔دوسری جانب صنعتی پیداوارکی طرزبھی تبدیل ہوئی ہے اوربڑے پیمانے پرصنعتیں بند بھی ہوئی ہیں جس سے روزگار کے اس اہم ترین شعبے میں ملازمت کے امکانات مزیدمخدوش ہوتے چلے گئے ہیں۔لیکن حکمرانوں کے لیے بیروزگاری ایک اہم منافع خوری کا ذریعہ بھی ہے۔جب محنت کی منڈی میں بیروزگاری کی بھرمارہوتو اس سے مالکان اورسیٹھوں کا پلڑابھاری ہوتا ہے وہ روزگار اپنی شرائط پر دیتے ہیں جس میں کم اجرتوں،زیادہ گھنٹوں کام اور پنشن ومیڈیکل کی سہولیات کا مکمل فقدان ہوتا ہے۔اس بیروزگارکے بحر میںبیروزگار محنت کشوں کی حالت درحقیقت تاریخ کے مختلف ادوار میں غلاموں کی منڈیوں سے مختلف نہیں ہے،جہاں جب غلاموں کی تعدادبڑھ جاتی تھی تو ان کی قیمتیں بھی گرجایا کرتی تھیں۔
تعلیم اورہنر مندی کاحصول اتنامہنگاہوگیاہے کہ آبادی کی بھاری اکثریت والے گھرانے اچھے معیار کے ہنر اورعلم خریدنے کی سکت اور حیثیت ہی نہیںرکھتے۔ 1950-70ء کی دہائیوں میں جو تھوڑابہت سرکاری تعلیمی ادارے اورپولی ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ علم وہنر نسبتاً سستا فراہم کیا کرتے تھے ،ان شعبوں میں کٹوتیوں سے یہ تقریباً ختم ہی ہوتے جارہے ہیں۔بیرون ملک لاکھوں کی تعداد میں محنت کش اپنی محنت کی اجرت کے حصول کے لیے ہجرت کر گئے لیکن آج یورپ اور امریکہ 2008ء کے کریش کے بعدروزگاردینے سے قاصرہوتے جارہے ہیں۔ نسل پرستی اورمذہبی منافرتوں کے شدت پکڑنے سے لاکھوں واپس آنے کے بارے میں غور کررہے ہیں جبکہ ہزاروں آبھی گئے ہیں۔خلیج اورعرب ممالک میں بڑے پیمانے پرپاکستانی اور جنوبی ایشیا کے مزدوروں کو بے دخل کرکے ملک واپس بھیجنے کا سلسلہ تیز ہوگیا ہے۔اس سے نہ صرف بیرون ملک مزدوروں کی ترسیلات میںکمی آنے سے معیشت مزید بحران زدہ ہوگی بلکہ پاکستان میں بیروزگاری کا سمندر مزید بڑھے گا۔لیکن جو مزدور برسرروزگارہیں ان کے حالات اس بیروزگاری کے بڑھتے ہوئے حجم سے مزید بدتر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ اس بیروزگاری کو مالکان ایک دبائو بنا کر ان مزدوروں کو بلیک میل کرتے ہیں اور
ان کو مزدوری سے بھی زیادہ اذیت ناک جبری مشقت کی کیفیت میں دھکیل دیتے ہیں۔نجی شعبے میں تقریباً ساری لیبر اب ٹھیکیداروں کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے جس میں صرف قلیل سی ڈیلی ویجزپر ان کی بھاری جانفشانی والی محنت کو چند سکوں کے عوض خرید لیاجاتا ہے اورنہ ہی ان کو کسی قسم کے حقوق اور سہولیات حاصل ہیں۔ ان کو ہر روز بھکاریوں کی طرح ان فیکٹریوں کے باہر لائینوں میں بیٹھنا پڑتا ہے اور اس اذیت کا انتظار کرنا پڑتا ہے کہ آج ان کی دیہاڑی کی بولی لگے گی بھی یا کہ نہیں؟ لیکن سرکاری شعبے میں بھی مزدوروں کے حالات ابتر ہی ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ بیروزگاری سرکاری شعبے کے مزدوروں پر بھی تلوار بن کر لٹک رہی ہے اور ریاستی بیوروکریٹ ان کو بری طرح بلیک میل کرتے ہیں۔ مثلاً مزدوروں کو پہلے ریگولر سے ڈیلی ویجز کے زُمرے میں لے آتے ہیں پھر ان کو انتظار کرنے کو کہا جاتا ہے۔ لیکن جب ان کا وقت پوراہوتا ہے اور وہ ریگولر کرنے کے لیے درخواست دیتے ہیں تو ان سے کہہ دیا جاتا ہے کہ اب تووہ ”اوورایج‘‘ ہوچکے ہیں ۔ جہاں سرکاری شعبے پر نجکاری کی تلوار لٹک رہی ہے وہاں نجی شعبے کے سرمایہ داروں کی طرح سرکاری شعبے کے بیوروکریٹ اور سیاسی حکمران بھی اپنے مقاصد کے لیے اس روزگارکا بھیانک کاروبار کرتے ہیں۔نوکریوںکی فراہمی سیاسی مقاصدکے لیے کم اور مالیاتی مقاصدکے لیے زیادہ ہے۔تمام سیاسی حکومتیں ،وہ مرکزی ہوں یا صوبائی، غریبوں کو لوٹ کر ان کو روزگاردینے کے اس کالے کاروبار میں ملوث ہیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ نظام میں نئی ٹیکنالوجی سے شرح منافع کو بڑھانے کے عمل میں مزدوروں کی اجرتوں اور ملازمتوں پر ڈاکہ دنیا بھر میں ڈالا جارہا ہے۔ آج اس نظام میںمنافع خوری کو قائم رکھنے کے لیے اجرتوں میںکٹوتیاں اور وسائل وسہولیات کو چھیننا اس کا بنیاد ی تقاضا ہے جس کے بغیر یہ چل نہیں سکتا۔ حکمران اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ محنت کش طبقہ اب لڑنے کی صلاحیت کھوچکا ہے لیکن ان کی یہ خوش فہمی آنے والی تحریکیں جلد دور کریں گی۔ ان کی آ واز اب ابھرنا شروع ہورہی ہے اور دنیا کے بہت سے ممالک کی سیاست پر اثر انداز بھی ہونے لگی ہے۔ اس سال یورپ کے سب سے اہم انتخابات فرانس میں23 اپریل کو ہوں گے۔ ان صدارتی انتخابات میں سوشلسٹ پارٹی کے صدارتی امیدوار کے طور پر بائیں بازو کے” بینوئت حامون‘‘ نے سرمایہ داری کے خاتمے کا نعرہ لگاتے ہوئے یہ منشور پیش کیا ہے کہ وہ ہفتے کے اوقات کار 48 سے کم کرکے32گھنٹے کردے گا اور ہر شہری کو ریاست ایک بنیادی رقم فراہم کرے گی۔سرمایہ داری میں یہ ممکن نہیں ہے۔دیکھیں فرانس میں دائیں اور بائیں بازو کی پولرائزیشن کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ پاکستان کی سیاست پر مسلط تمام پارٹیوں کی قیادتوں نے مزدوروں کے ان عذابوں اور دکھوں کو درگزر کررکھا ہے۔ انقلابی سوشلزم کے نظریے اور طبقاتی جدوجہد کے امکان کو حاوی دانش نے مسترد کررکھا ہے۔ لیکن یہ دکھوں اور عذابوں سے گھائل مزدور جاگے گا ضرور کیونکہ جب تک کسی معاشرے میںطبقات موجود ہوں تو طبقاتی کشمکش بھڑک کر رہتی ہے ۔آج اگر محنت کشوں کے نظریات کی سیاست کو دبا دیا گیا ہے تو کل پھٹ کر ابھرے گی۔ کیونکہ نظریات کبھی مرنہیں سکتے۔ اقبال نے ہی لکھا تھا ؎ 
کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
صدیوں سے رہا ہے دشمن دورِ زماں ہمارا

بشکریہ روزنامہ دنیا

Views All Time
Views All Time
270
Views Today
Views Today
1

Leave a Reply