سامراجی زوال کا نوشتۂ دیوار!-ڈاکٹر لال خان

Print Friendly, PDF & Email
ہم ایک عجیب دور سے گزر رہے ہیں۔ جب سے ڈونلڈ ٹرمپ ‘غیر متوقع‘ طورپر، تجزیہ نگاروں اور ماہرین کے تجزیوں کے برعکس، امریکہ کا صدر بنا ہے اس کے بیانات اور پالیسی کے اعلانات تارکین وطن، خواتین اور سماج کی دوسری پرتوں کو خوفزدہ کررہے ہیں۔ ٹرمپ کی بیگانہ ترسی، مسلمان مخالف وطن پرستی اور رجعتیت پر مبنی دوسرے بیانات قابل مذمت ہیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان بیانات سے سب سے زیادہ امریکی اسٹیبلشمنٹ اور ریاست پریشان ہیں۔ اس کے دھڑادھڑ بے ہنگم صدارتی احکامات واشنگٹن کی اشرافیہ کا منہ چڑا رہے ہیں۔ اس کی تقریروں نے امریکی ریاستی اداروں اور پالیسیوں کی ساکھ اور عزت کو بے تحاشا نقصان پہنچایا ہے اور 1776ء میں اس کے قیام سے لے کر اب تک اس کی جمہوریت اور سفارتی منافقت کو بے نظیر انداز میں ننگا کر دیا ہے۔
نہ صرف امریکہ بلکہ زیادہ ترسرمایہ دار ممالک میں روایتی حکمران طبقات ٹرمپ سے نالاں ہیں۔ اس کی مہم کے عروج پرساٹھ’قومی سلامتی کے ماہرین‘نے اس پرشدیدتنقیدکی۔ مشہور زمانہ کھلے خط کے دستخط کنندگان میں داعش کے ہمدرد ‘جان مکین ‘بھی شامل تھے۔ ان سب نے امریکیوں کو مشورہ دیاتھا کہ ٹرمپ دنیامیں ہماری ساکھ کو خراب کرکے ہمیں مزیدغیرمحفوظ بنادے گا۔ لیکن ٹرمپ صدارتی کرسی سنبھالنے کے بعدبھی اپنی بیان بازی اورواشنگٹن کی اشرافیہ کاتمسخر اڑانے سے بازنہیں آیا‘جو ایک عرصے سے امریکی سامراج کی طاقت کاقلعہ رہی ہے۔ اس نے بغیرکسی سفارتی چالاکی کے پوری دنیامیں امریکی حملوں اورقتل عام پرشدیدحملے کیے۔
فاکس نیوزپربل ریلی کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں جب اس سے پوچھاگیاکہ وہ پیوٹن کی عزت کیوں کرتاہے جو کہ ایک قاتل ہے‘ تواس کاجواب امریکی سامراجی اسٹیبلشمنٹ اورریاست کے لیے انتہائی ہولناک تھا۔ اس نے کہا،”دنیا میں بہت سے قاتل ہیں۔ ہمارے ہاں بھی بہت سے قاتل ہیں۔ آپ کاکیاخیال ہے ہماراملک اتنا معصوم ہے! میراخیال ہے ہماراملک بھی ٹھیک ٹھاک قتل عام کررہا ہے۔‘‘ جب امریکی سکیورٹی چیف نے اس پرتنقید کی توٹرمپ نے جواباًکہا،”میں تمہیں بتاتا ہوں کہ ہماری فوج مائیکل ہیڈن جیسے لوگوں کی سرپرستی میں کتنااچھاکام کررہی ہے۔ ہم اٹھارہ سال سے مشرق وسطیٰ میں جنگیں لڑرہے ہیں، چاریاپانچ کھرب ڈالرخرچ کرچکے ہیں، ہمیں خود پتہ نہیں کہ ہم کیاکر رہے ہیں! ہم نہیں جانتے کہ ہم کس سے لڑرہے ہیں، ہم لوگوں کو اپنی صفوں میں شامل کرنے کے لیے انہیں مسلح کررہے ہیں جبکہ ہم جانتے ہی نہیں کہ وہ کون ہیں؟ جب یہی لوگ کسی ملک پرقبضہ کرلیتے ہیں تووہ اپنے پیشرو سے بھی زیادہ گندے ہوتے ہیں۔ میری جان چھوڑو!‘‘
اگریہ امریکی فوجی اسٹیبلشمنٹ پر حملہ تھاتو اس نے کارپوریٹ میڈیاکوبھی نہیں بخشا۔ وہ یورپی اور امریکی میڈیا ہائوسز جو پاکستان جیسے ملکوں میں اپنے معتبری کی وجہ سے مشہور ہیں اور جنہیں یہاں سیاست دان اور تھنک ٹینکس تقدس، ایمانداری اور پاکیزگی کی علامت گردانتے ہیں، ان سب کو ٹرمپ نے واضح طریقے سے بے نقاب کردیا۔ اس نے ان کو ‘جھوٹی خبر‘ کہااور اس کی پریس کانفرنس میں موجود ان کے نمائندوں کو منہ بند کرنے کو کہا۔ لیکن اس چیز نے پاکستان میں موجود بائیں بازو کے کارکنان اور لکھاریوں کو صحیح ثابت کیا جو دہائیوں سے سامراجی میڈیا کے جھوٹ اور فریب کے بارے میں بتاتے رہے ہیں اور یہ بھی کہ وہ نظام کے خلاف محنت کشوں کی جدوجہد کو کس طرح منتشر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 
سب سے بڑھ کر ٹرمپ نے امریکی سامراج کی بدنام زمانہ ایجنسی سی آئی اے کا تمسخر اڑایا جس نے اسٹیبلشمنٹ کے ناپسندیدہ امیدوار، جو امریکی بورژوازی کے غالب دھڑے کے پالیسی سازوں کے قابومیں نہیں تھا، کے خلاف میڈیا میں انکشافات کیے۔ انڈونیشیا سے لے کر ہنڈوراس تک ان ایجنسیوں کے قتل عام اور افغانستان سے لے کر مصر تک ردانقلابی ڈالرجنگ میں ان کے کردار کے بارے میں سب کو پتا ہے۔ لیکن ٹرمپ نے اسی ریاست اور اس کی خفیہ ایجنسیوں، جن کی وہ بے عزتی کررہا ہے، کے ساتھ رہ کر حکمرانی کرنی ہے۔ این ایس اے اور دوسری ایجنسیاں عام امریکیوں کی بھی جاسوسی کر رہی ہیں اور عوام ان کے استحصال اور ریاست کی ان کی نجی زندگیوں میں مداخلت سے تنگ آچکے ہیں۔ 
سامراجی دوسری سرزمینوں پر تقسیم کرو اور حکمرانی کرو کی پالیسی کے ذریعے قبضہ کرتے تھے، اسی پالیسی کو انہوں نے مقامی سطح پر بھی اپنی حکمرانی کو جاری رکھنے کے لیے استعمال کیا۔ ایک رجعتی امریکی بینکر اور جواری ‘جے پی مارگن‘ نے تقریباً ایک صدی پہلے شیخی بگھاری تھی کہ، ”جب عام لوگ قانونی مراحل کے ذریعے اپنے گھروں سے محروم ہوتے ہیں تو وہ بڑے سرمایہ کاروں کی مرکزی طاقت سے چلنے والے قانون کے مضبوط ہاتھوں میں آسانی سے قابو میں آسکتے ہیں۔ بے گھر لوگ اپنے لیڈروں سے نہیں لڑتے۔ لوگوں کو تقسیم کرکے ہم ان کی توانائیوں کو غیر اہم چیزوں پر آپس میں لڑنے میں صرف کراتے ہیں۔‘‘
کارپوریٹ بزنس امریکی محنت کش طبقے کو برباد کررہاہے اور ٹرمپ کی اس بے ہنگم گھن گرج نے روایتی حکمران سیاست دانوں کی ڈرامہ بازیوں کو برباد کردیا ہے۔ حتیٰ کہ جدید الیکٹرانک آلات کی سحرانگیزی، جسے حکمران طبقات لوگوں کو مصروف اور مسحور کرنے اور حکمرانوں کی بربادیوںسے توجہ ہٹانے کے لیے استعمال کرتے ہیں،بھی ماضی کی طرح کارآمد نہیں رہی۔ حکمرانوں کی مسلسل برین واشنگ اور سیارے کی تیزبربادی کا عمل، ڈونلڈ ٹرمپ جیسے ایک بے قابو آدمی کے امریکی صدر بننے کی وجہ سے اچانک مشکل میں پھنس گیا ہے۔ 
حتیٰ کہ عالمگیریت کے حامی پوپ نے ٹرمپ پر تنقید کی اور کہا کہ وہ عیسائی نہیں ہے کیونکہ اس نے حاوی سیاسی مفادات اور مشہور شخصیات کے خلاف سخت مؤقف لیا تھا۔ جب اس نے ٹرمپ پر تنقید کی تو ٹرمپ نے اس کے بیان کو افسوسناک قرار دیا اور اس اشارہ کیا کہ ویٹی کن سٹی کے گرد مسلمانوں کو دور رکھنے کے لیے دیوار ہے۔
لیکن جس چیز کو تمام تجزیہ نگار شعوری طور پر چھپاتے ہیں وہ تاریخ کی سب سے بڑی سامراجی طاقت کی معاشی، عسکری، سماجی، سفارتی اور سیاسی زوال پذیری ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا ابھار اس زوال پذیری اور بے چینی کی غمازی کرتاہے جس میں امریکی سماج، ریاست اور نظام داخل ہوچکاہے۔ جب بدعنوان بینکوں اور مالیاتی کمپنیوں کو 2008ء کے مالیاتی کریش کے بعد بارک اوباما نے بیل آئوٹ کیا تو اس دیوالیہ پن کی قیمت پھر امریکی محنت کشوں نے ادا کی۔ ان کارپوریٹ فرموں اور مالکان کی ہوس زر کی تسکین کے لیے ریاستی خزانے خالی کردیئے گئے اور امریکی قرضے 19کھرب ڈالر کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئے۔ 
بالآخر نوجوانوں کی قیادت میں عوام پورے ملک میں ان گِدھوں کے خلاف عظیم الشان ”وال سٹریٹ پر قبضہ کرو‘‘ تحریک میں سڑکوں پر نکل آئے‘ لیکن ایک انقلابی قیادت کی غیر موجودگی میں اس تحریک کا تحلیل ہونا ناگزیر تھا؛ تاہم پھر عوامی غم و غصہ سیاسی سطح پر پھٹ پڑا جب پچھلے انتخابی مہم میں برنی سینڈرز نے کھلم کھلا سوشلزم کودنیا کے سب سے امیر ملک کے محنت کشوں اور غریبوں کے لیے اس بحران سے نکلنے کا واحد راستہ قرار دیا۔ جب کلنٹن ٹولے اور ڈیموکریٹک پارٹی کی افسرشاہی، جو امریکی بورژوازی کی غلامانہ انداز میں پیروی کرتی ہے، نے سینڈرز کا راستہ روکا تو محنت کشوں کی اکثریت اس سیاسی اکھاڑے سے علیحدہ ہوگئی‘ لیکن حکمران اسٹیبلشمنٹ اور سیاست سے نفرت میں دوسری پرتیں ٹرمپ کی طرف چلی گئیں۔
ٹرمپ قطعاً کوئی انقلابی نہیں ہے بلکہ ایک رجعتی ارب پتی اور ایک غلیظ سرمایہ دار ہے جس کی جوئے کے اڈوں اور پراپرٹی میںبڑی حصہ داری ہے۔ وہ کوئی مسئلہ حل نہیں کرے گا بلکہ شاید امریکی سامراج کی تاریخی زوال پذیری کو مزید تیز کرے گا؛ تاہم امریکہ کے غریب اور استحصال زدہ محنت کشوں کی نجات کا واحد راستہ ایک سوشلسٹ انقلاب ہے۔ اس طرح کا انقلاب 1917ء کے بالشویک انقلاب کے بعد انسانی تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ ہوگا۔ یہ اپنے تئیں ٹراٹسکی کے اس تناظر کو درست ثابت کرے گا کہ، ”امریکہ کا انقلاب وہ بھٹی ہے جس میں انسانیت کا روشن مستقبل تشکیل پائے گا۔‘‘
dunya.com.pk

Views All Time
Views All Time
422
Views Today
Views Today
1

Leave a Reply