حسینؑ خود نہیں بنتا خدا بناتا ہے

Print Friendly, PDF & Email

سانحہ کربلا کا استعارہ اور غلام محمد قاصرؔ کی غزل
سانحہ کربلا اور اعلائے کلمۂ حق کے لیے امام حسین ؑ اور ان کے جاں نثار رفقا کی شہادت تاریخ عالم کا ایک ایسا واقعہ ہے جس نے نہ صرف تہذیب عالم بلکہ ادبیات عالم پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ بے مثال واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک ایسا روشن نقطہ اور سرچشمہ فیض ہے جو اردو شاعری کے حافظے سے بھی نہ صرف یہ کہ کبھی محو نہیں ہوا بلکہ تہ در تہ استعاراتی اور علامتی توسیع سے اس میں ایک عالمگیر اور آفاقی معنویت پیدا ہوگئی ہے۔
یہ اہل علم کا اجتماع ہے اور آپ تمام افراد واقعہ کربلا کی جزئیات تک سے بخوبی آشنا ہیں۔ میں خود بھی اس وقت اس واقعے کی تفصیل میں جانا نہیں چاہتا اور نہ ہی ان اصناف ادب مثلاً رباعی، سلام اور مرثیہ کے حوالے سے گفتگو کرنا چاہتا ہوں جو امام عالی مقام اور ان کی بے مثال قربانی کے اظہاریے کے لیے وقف ہیں۔ میرا موضوع صرف اور صرف اردو غزل پر سانحہ کربلا کے اثرات اور اس کے تناظر میں غلام محمد قاصر کی غزل کا مطالعہ ہے۔

اردو غزل پر سانحہ کربلا کے اثرات کا موضوع ایک بے حد پھیلا ہوا موضوع ہے۔ اس کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ اس موضوع پر نہ صرف ممتاز جون پوری، خون شہیداں ، گوپی چند نارنگ سانحہ کربلا بطور شعری استعارہ اور ضمیر اختر نقوی اردو غزل اور کربلا کے عنوان سے مکمل کتابیں تحریر کرچکے ہیں بلکہ اسی موضوع پر لکھنؤ کے مشہور ذاکر اور عالم ڈاکٹر عباس رضا نیرّ نے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی مکمل کیا ہے۔

اس محدود و مختصر وقت میں اس موضوع کے تمام تو کیا، کسی ایک پہلو کا بھی مکمل احاطہ ممکن نہیں۔ تاہم میں اس حوالے سے آپ کو اساتذہ کے چند اشعار ضرور سنانا چاہوں گا تاکہ میں اپنی بات کسی حد تک آپ کی سماعتوں کی نذر کرسکوں۔ میں واضح کرتا چلوں کہ میں نے یہ تمام اشعار، ان اساتذہ کی غزلوں سے حاصل کیے ہیں، ان میں کوئی شعر کسی سلام یا مرثیے کا شعر نہیں ہے۔
مثلاً میر کہتے ہیں
زیر شمشیر ستم میر تڑپنا کیسا
سر بھی تسلیم محبت میں ہلایا نہ گیا
مومن خان مومن کا شعر ہے
سینہ کوبی سے زمیں ساری ہلا کے اُٹھے
کیا علم دھوم سے تیرے شہدا کے اُٹھے
عزیز لکھنوی نے لکھا
جب لاؤں گا ہاتھوں پہ دل کشتہ کی میت
کیا شور سر عرصہ محشر نہ اُٹھے گا
اقبال کہتے ہیں
وہ ایک سجدہ جسے توگراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
سلیمان ندوی کا مشہور شعر ہے
ہزار بار مجھے لے گیا ہے مقتل میں
وہ ایک قطرہ خوں جو رگِ گلو میں ہے

یہ بھی پڑھئے:   جو جاگتے تھے گرم ریت پر سلا دیے گئے۔۔۔ ڈاکٹر جواز جعفری

اور کون ہے جس کے حافظے میں مولانا جوہر کی غزل کا یہ شعر محفوظ نہیں
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
ذرا آگے بڑھیے تو یاس یگانہ چنگیزی کی غزل کا یہ مطلع دامن گیر ہوتا ہے
بندہ وہ بندہ جو دَم نہ مارے
پیاسا کھڑا ہو دریا کنارے
اور نجم آفندی کا یہ شعر بھی سنتے چلیے
جاں نثاروں نے ترے کردیے جنگل آباد
خاک اڑتی تھی شہیدانِ وفا سے پہلے

اساتذہ کی غزلوں سے یہ استعارہ عہد حاضر کے شاعروں تک منتقل ہوا اور مزاحمتی ادب کا ایک بھرپور طریقہ اظہار بن گیا۔
فیض نے لکھا
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
سبط علی صبا نے لکھا
ہر حرملہ کے دوش پر ترکش کو دیکھ کر
ماؤں نے اپنی گود میں بچے چھپا لیے
شکیب جلالی کی ایک غزل کا لاجواب مطلع سنیے
دریا تمام اشک ندامت سے اٹ گیا
ساحل سے کوئی شخص تو پیاسا پلٹ گیا

حسن نثار نے حر کی شخصیت کو اپنا مثالیہ سمجھتے ہوئے لکھا
مرا حسین ابھی کربلا نہیں پہنچا
میں حر ہوں اور ابھی لشکر یزید میں ہوں
مصطفی زیدی کا شعر ہے
مجھ پر چلی ہے عین بہ ہنگامہ سجود
اک زہر میں بجھی ہوئی تلوار دیکھنا
اسی زمین میں عبیداللہ علیم نے لکھا
اس قافلے نے دیکھ لیا کربلا کا دن
اب رہ گیا ہے شام کا بازار دیکھنا
مجید امجد کا ایک شعر ہے
سلام ان پر تہ تیغ بھی جنہوں نے کہا
جو تیرا حکم، جو تیری رضا، جو تو چاہے

ہمارے دور میں یہ استعارہ اتنے بھرپور طریقے سے سامنے آیا کہ عرفان صدیقی، شہریار، مظفر حنفی، محسن نقوی، شہرت بخاری، مصطفی زیدی اور پروین شاکر کی پوری پوری غزلیں اس کی مثال میں پیش کی جاسکتی ہیں۔

مجھے احساس ہے کہ تمہید کچھ زیادہ ہی طویل ہوگئی۔ ہمارا موضوع اردو غزل اور واقعہ کربلا نہیں تھا بلکہ اس کے تناظر میں غلام محمد قاصر کی غزل کا مطالعہ تھا۔ چنانچہ اب میں آپ کی خدمت میں قاصر کی غزلوں کے چند اشعار پیش کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے یہ اشعار جمع کرنے میں کسی تگ و دو سے کام نہیں لیا بلکہ جیسے جیسے میں قاصر کی کلیات کا مطالعہ کرتا چلا گیا یہ اشعار دامن گیر ہوتے چلے گئے۔

جب بھی کوئی مشکیزہ آئے میرے خیمے کو
اک قنات نیزوں کی راستے میں تنتی ہے
۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔
محفوظ ہیں جو زرد زمانوں کے ظلم سے
وہ پھول میں نے دیکھے ہیں اک سبز شال پر
۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔
کوفۂ شام میں ہے امن و اماں
چند خیمے لب فرات جلے
۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔

یہ بھی پڑھئے:   غلام محمد قاصر کی شاعری اور پیراسائکالوجی

پیاس کی سلطنت نہیں مٹتی
لاکھ دجلے بنا فرات بنا
۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔
قاصر مرے بیاں کی تصدیق کررہے ہیں
مقتول کی قبا پر قاتل کے دستخط بھی
۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔
کشتی بھی نہیں بدلی، دریا بھی نہیں بدلا
اور ڈوبنے والوں کا جذبہ بھی نہیں بدلا
۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔
میں گن رہا تھا شعاعوں کے بے کفن لاشے
اتر رہی تھی شب غم شفق کے زینے سے
۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔
گم صم کھڑے تھے سطح پر سب دوریوں کے عکس
دریا سنا رہا تھا تری گفتگو مجھے
۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔
سانس دریا، زندگی کشتی، بدن ہے بادبان
اس سفر میں ساحلوں کا تذکرہ نایاب ہے
۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔
لب فرات کھلائے ہیں تو نے پیاس کے پھول
گدائے آب ہے قاصر، جواز جاں کے لیے
۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔
اُلجھ نہ مہر سے تو اے مری شب تاریک
وہ جگنوؤں کے پروں میں شعاعیں بھر دے گا
۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔
دیے بجھا کے وہ جب روشنی بنانے لگا
تو اس کے گھر کو جلایا جہان والوں نے
۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔
کربلا نقش ہے اب لوح ابد پر کہ یہ شہر
پہلے مسمار ہوا، بعد میں تعمیر ہوا

یہ تو قاصر کی غزلوں کے وہ اشعار ہیں جن کے ایک ایک مصرع میں مجھے واقعہ کربلا اپنی پوری شکوہ کے ساتھ جھلکتا نظر آیا۔ اور اب میں قاصر کی ایک نظم تضاد سنا کر آپ سے رخصت چاہوں گا، میں نے بہت سلام پڑھے ہیں، رثائی ادب کا بھی تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہے مگر ایسی نظم مجھے پوری رثائی ادب میں کہیں نظر نہیں آئی۔ایک ایک شعر پر زبان سے سبحان اللہ نکلتا ہے۔

یہ نظم قاصر کے قلم سے ہی ممکن تھی، سنیے اور میرے خیال کی تائید کیجیے۔

تضاد
یزید نقشۂ جور و جفا بناتا ہے
حسینؑ اس میں خطِ کربلا بناتا ہے
یزید موسمِ عصیاں کا لاعلاج مرض
حسینؑ خاک سے خاکِ شفا بناتا ہے
یزید کاخِ کثافت کی ڈولتی بنیاد
حسینؑ حُسن کی حیرت سرا بناتا ہے
یزید تیز ہواؤں سے جوڑ توڑ میں گم
حسینؑ سر پہ بہن کے رِدا بناتا ہے
یزید لکھتا ہے تاریکیوں کو خط دن بھر
حسینؑ شام سے پہلے دیا بناتا ہے
یزید آج بھی بنتے ہیں لوگ کوشش سے
حسینؑ خود نہیں بنتا خدا بناتا ہے
****

‘‘9 مارچ 2016  کو کراچی میں کلیات قاصر (اک شعر ابھی تک رہتا ہے) کی تقریب پذیرائی میں پڑھا گیا’’

Views All Time
Views All Time
8903
Views Today
Views Today
1

Leave a Reply