سفرنامہ واش روم

Print Friendly, PDF & Email

آخرکار کافی دیر سوچنے کے بعد ہم نے فیصلہ کر ہی لیا کہ ہمیں واش روم کی سیر کو نکل ہی جانا چاہیئے آخر سب ہی جاتے ہیں ہم کیوں نہ جائیں. تو دوستو ہمارا پروگرام فائنل ہوگیا کہ ہم واقعی واش روم جارہے ہیں ہم بستر پر فیس بک استعمال کرتے کرتے تهک چکے تهے سو ایک عجیب سی خوشی بهی ہورہی تهی. فیصلہ ہوتے ہی تیاریوں میں لگ گئے. تهوڑا سا واش روم کا تعارف کروائے دیتے ہیں تاکہ آپ بهی سفر سے لطف اندوز ہوسکیں. واش روم دراصل ایک ایسی جگہ ہے جہاں بعض لوگ سوچنے جاتے ہیں اور بعض لوگ نہ سوچنے. واش روم دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جن پر بیٹها جاتا ہے اور ایک وہ جن پر لیٹنے کے سٹائل میں بیٹها جاتا ہے موخرالذکر واش روم سیر کے لیے زیادہ آرام دہ تصور کیے جاتے ہیں. واش روم تقریبا ہر گهر میں موجود ہوتا ہے بلکہ اکثر گهروں میں تو گهر کے ہر فرد کے لیے علیحدہ علیحدہ "سیر پوائنٹ” بنوائے جاتے ہیں.

دیہاتوں میں واش روم کی بجائے "جنگل پانی” ہوتے ہیں حالانکہ یہ تاریخ کی بہت بڑی بدیانتی ہے کہ "جنگل پانی” میں نہ تو جنگل ہوتا ہے نہ پانی، لیکن پهر بهی اسے جنگل پانی کہا جاتا ہے. واش روم کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو یہ کسی ایسے ملک کی ایجاد لگتا ہے جہاں ٹیلے وغیرہ نہیں ہوتے ہوں گے. پهر جیسے جیسے دنیا اور خوراک ترقی کرتے گئے سہل پسندی اور اسہال پسندی بهی اسی طرح ساتھ ساتھ ترقی کی منازل طے کرتے گئے اور واش روم گهر کے کونے سے کمرے کی کمر میں بنائے جانے لگے یعنی سیپرٹ سے اٹیچ ہوتے گئے بعید نہیں کہ آنے والے وقتوں میں بستر بهی واش روم میں لگایا جائے.

واش روم میں ویسے تو کئی چیزیں سکون پہنچانے والی ہوتی ہیں لیکن سب سے مزیدار چیز واش روم کا آئینہ ہوتا ہے اس آئینے کی خاص بات یہ ہوتی ہے اس میں بندہ خود کو ننگا بهی دیکھ سکتا ہے. اس کے علاوہ واش روم میں لوٹا بهی ہوتا ہے لیکن اس لوٹے کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ یہ ہمیشہ ایک ہی پارٹی کے ساتھ رہتا ہے کبهی کبهی میں سوچتا ہوں سیاستدانوں کو لوٹا کہنا لوٹے کی توہین ہے کیونکہ لوٹے جیسی وفادار چیز میں نے آج تک نہیں دیکهی. لوٹے کے علاوہ ٹشو، صابن (ہاتھ دهونے کے لیے) برش، تیزاب، اور اسی طرح کی کئی اہم چیزیں واش روم میں موجود ہوتی ہیں.

یہ بھی پڑھئے:   ورلڈ ٹی ٹونٹی: پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان ہونے والے میچ پر میمز کی بھرمار

تو دوستو آخر ہم نے اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنایا اور سیر کی سب سے اہم چیز یعنی موبائل ساتھ لیا اور بیڈ کی ایک سائڈ سے اترنے لگے، اگر آپ نے بهی واش روم کی سیر کی ہو تو آپ کو علم ہوگا کہ موبائل وہ واحد چیز ہے جسے واش روم میں ساتھ لے جایا جائے تو سفر بہت اچها اور طویل گزرتا ہے. ویسے بهی تاریخ گواہ ہے کہ جو شخص بهی موبائل واش روم میں لے کر گیا ہے بیس منٹ تک واپس نہیں لوٹا، اس کے علاوہ تاریخ اس بات کی بهی گواہی دے گی کہ جب آپ واش روم کی سیر کی انتہا پر ہوتے ہیں یعنی حاجات ضروریہ کی پیک( Peak ) پر ہوتے ہیں اس وقت موبائل ضرور بج اٹهتا ہے.

خیر ہم نے بهی موبائل اٹهایا اور رخت سفر باندھ لیا. پہلا قدم اٹهایا پهر دوسرا قدم اٹهایا اسی طرح کوئی دس بارہ قدم اٹهانے کے بعد ہم واش روم کے دروازے پر پہنچ گئے راستے کے یہ دس بارہ قدم ہم سفر کو انجوائے کرتے رہے کئی جگہوں پر موبائل سے نظر اٹها کر کمرے کے دوسرے نظاروں پر بهی نظر پڑی لیکن چونکہ یہ سفر ہم کئی بار کرچکے تهے سو نظارے ہماری توجہ حاصل نہ کر پائے. خیر کیا خوبصورت دروازہ تها خالص کیکر کی لکڑی کا خوبصورت دروزہ جسے اندر کی طرف کهولا جاتا ہے. واش روم کا دروازہ عموماََ سنگل ہی ہوتا ہے کیونکہ اس میں ایک وقت میں ایک ہی بندہ جاسکتا ہے لیکن بعض گهروں میں دو بندے اکٹهے بهی جاتے ہیں لیکن تین ہوکر نکلتے ہیں. تیسرا بندہ تقریبا نو ماہ اندر رہتا ہے (واش روم کے اندر نہیں). خیر ہم سنگل تهے سو ہمیں سنگل ہی اندر جانا تها.

یہ بھی پڑھئے:   فیس بک کی لڑکیاں-گل نوخیز اختر

پہلا قدم اندر رکها تو آب و ہوا کی تبدیلی کا احساس ہوا. واش روم کا موسم، درجہ حرارت اور آب و ہوا عام کمروں سے مختلف ہوتی ہے بلکہ واش روم میں ایک خاص بات یہ بهی ہے کہ بندا اندها بهی ہو تو اسے پتا چل جاتا ہے کہ وہ واش روم پہنچ چکا ہے. ہم واش روم کے اندر سامنے رکهی کرسی نما بلا کو دیکهتے ہی جمپ مار کر اس پر سوار ہوگئے اور موبائل کهول کر سفر انجوائے کرنے لگے کوئی بیس منٹ کی سیر کے بعد ہمارا سفر اختتام کو پہنچا( کرسی پر بیٹهنے سے لے کر اٹهنے تک کے درمیان کچھ اور واقعات بهی پیش آئے جن کا ذکر کرنا یہاں مناسب نہیں) سیر کے دوران ہمارا سارا دهیان موبائل کی طرف رہا. پهر ہم نے ٹشو، فلش، لوٹے اور صابن( ہاتھ دهونے کے لیے) کے لوازمات پوری ایمانداری کے ساتھ نبهائے اور سفر کے اختتام پر ایک نظر آئینے پر ڈالی اور باہر کی طرف قدم بڑها دیئے

Views All Time
Views All Time
486
Views Today
Views Today
1

Leave a Reply