عید اب کے بھی دبے پاؤں گزر جائے گی

Print Friendly, PDF & Email

coverرمضان ختم ہوا، عید آ گئی،سب عید کی گہما گہمی میں گم ہو گئے،اپنی اپنی خوشیوں میں مگن ہو گئے،اور کیوں نہ ہوں،رمضان کے روزے رکھنے کے بعد عید منانا بھی ایک سنت ہے اور خوشی منانا سب کا حق بھی ہے۔
مگر میں سوچتی ہوں ہم سب تو اپنے اپنے افراد خانہ کے ساتھ،اپنے اپنے رشتہ داروں کے ہمراہ ہنسی خوشی عید مناتے ہیں،ہلا گلا کرتے ہیں،دعوتیں کرتے ہیں، کھاتے پیتے ہیں،موج مستی کرتے ہیں۔مگر ان لوگوں کا کیا جن کا دنیا میں کوئی نہیں۔نہ جانے یتیم خانوں میں بچے کس طرح عید مناتے ہوں گے؟ کیا انہیں نئے کپڑے پہننا نصیب ہوتے ہیں؟بالفرض ہوتے بھی ہوں تو انہیں نئے کپڑے پہنے دیکھ کر کوئی خوش ہونے والا بھی تو نہیں ہوتا ہوگا۔
وہ سب لوگ کیسے عید مناتے ہوں گے جو کسی بھی جسمانی معذوری کا شکار ہوتے ہیں اور انہیں کسی کی مدد کی ہمہ وقت ضرورت ہوتی ہے۔اور وہ سب جنہیں اسپیشل لوگ کہا جاتا ہے جو اسپیشل اداروں میں رہتے ہیں،اور ذہنی اور جسمانی معذور بچے یعنی اسپیشل چلڈرن،کیا انہیں ہم سب کی طرح عید منانی نصیب ہوتی ہے؟
ہمارے ملک میں اولڈ ہومز کا اتنا رواج تو نہیں ہے مگر چیدہ چیدہ ایسے ادارے موجود ہیں جہاں ایسے بزرگ رہتے ہیں جنہیں ان کے گھر والے گھر میں رکھنے پر تیار نہیں ہوتے سبب جو بھی ہو، مگر ان لوگوں کی عید کس قدر تنہائی میں گزرتی ہوگی یہ سوچ ہی بہت کرب ناک ہے۔ایسے مریض جو زندگی اور موت کی کشمکش سے نبرد آزما ہیں اور اسپتالوں میں داخل ہیں ان کے اور ان کے گھر والوں کے لئے عید کوئی معنی نہیں رکھتی ہو گی۔
کہتے ہیں وقت ہر زخم کا مرہم ہوتا ہے اور وقت کے ساتھ سب زخم بھر جاتے ہیں، غلط ہے۔کچھ زخم ایسے ہوتے ہیں جنہیں وقت کبھی بھی نہیں بھر سکتا۔کیا کوئٹہ میں بم دھماکوں میں شہید ہونے والوں سینکڑوں لوگوں کے اہل خانہ کے زخموں کو وقت بھر سکتا ہے؟ سبین محمود کی والدہ کو اس عمر میں بیٹی کی جدائی کا جو زخم لگاکیا وہ بھر جائے گا؟کیا استاد سبط جعفر کے خاندان کے زخموں پر کوئی مرہم رکھ سکتا ہے؟خرم ذکی کے بیوی بچوں کو ان کی جدائی کا جو صدمہ سہنا پڑااس زخم کو کون سا مرہم بھر سکتا ہے؟ امجد صابری کے اہل خانہ کیا ان کی جدائی کے غم کو بھلا پائیں گے؟امریکہ،برما،بنگلہ دیش،بغداد،ترکی اور دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی انسان اور انسانیت کا خون ہوا ہے ، ان سب کے زخموں کا کوئی مرہم نہیں ہے۔
کاش ہم سب خوش ہونے سے پہلے،عید منانے سے پہلے، یتیموں،معذوروں،بیماروں،بزرگوں اور خصوصی طور پر شہداء اور ان کے اہل خانہ کے بارے میں صرف ایک بار ضرور سوچیں اور دامےدرمے،سخنے جو کچھ ہم کر سکتے ہوں ضرور کریں۔ہم سب ان کی اصل خوشیوں کا نعم البدل تو نہیں ہو سکتے مگر ان سب کو چند لمحوں کی خوشی دے کر ان کے چہروں پر وقتی مسکراہٹ ضرور لا سکتے ہیں اور دعائیں لے سکتے ہیں۔

Views All Time
Views All Time
509
Views Today
Views Today
1
mm

امِ رباب

ایک محنت کش خاتون ہیں۔ قسمت پر یقین رکھتی ہیں۔کتابیں پڑھنے کا شوق ہے مگر کہتی ہیں کہ انسانوں کو پڑھنا زیادہ معلوماتی، دل چسپ، سبق آموز اور باعمل ہے۔لکھنے کا آغاز قلم کار کے آغاز کے ساتھ ہوا۔ اپنی بات سادہ اور عام فہم انداز میں لکھتی ہیں۔ قلم کار ٹیم کا اہم حصہ ہیں۔

Leave a Reply