اور وہ کتاب دیکھے!

Print Friendly, PDF & Email

پپو مخولئے کا ماننا ہے کہ کتاب سے کوئی فرق نہیں پڑنے کا۔ کہنا اُس کا یہ ہے کہ اگر کتاب سے فرق پڑتا تو صدیوں سے ہم وحدہ لا شریک کی الہامی کتاب کو پورے خشوع و خضوع سے تلاوت کررہے ہیں، اُس کے احکامات سُن رہے ہیں لیکن ہمارے معاملات اور خیالات پر کتنے فیصد فرق پڑا ہے؟ کائناتی سلامتی اور فلاح کے اس زندہ دستور پر ایمان کے باوجود آج ہم جہاں کھڑے ہیں وہ اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ ہم جتنا مرضی پڑھیں لکھیں اعمال کے حوالے سے ہم سے بڑا من موجی شاید ہی کوئی ہو۔

اُس کا خیال ہے کہ ہم سُن کر ماننے کے بجائے مان کر سننے کے عادی ہیں۔ ہم جسے نہیں مانتے اُس کی سنتے بھی نہیں لیکن مان کر سننے میں بھی ہم جتنا جی میں آئے اُتنا ہی مانتے ہیں، سو جو وارا کھائے وہی سنتے ہیں۔ اُسے لگتا ہے کہ ہم مانتے بھی اُسے ہی ہیں جو ہمارے مطلب کی کہتا سنتا ہے اور جیسے ہی وہ ہمارے مطلب کے علاوہ کچھ کہنے کی جسارت کرتا ہے اُس پر ہمارا ایمان ڈولنے لگتا ہے۔ پپو کا سوال ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارا مطلب ہی درحقیقت ہمارا ایمان بن کر رہ گیا ہے؟

میں پپو کی اتنی سنجیدہ اور معنی خیز گفتگو پر حیرت میں غوطے کھا رہا تھا۔ یہ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اُس کا اصل موضوع سخن ہے کیا؟ بی بی ریحام نے وقت کا انتخاب کرتے ہوئے شکوک و شبہات کو خود اپنی کتاب سے ہوا دی ہے اور طرفین اپنے اپنے مقاصد تئیں اس ہوا کو آندھی بنانے میں مصروف ہیں۔ اِدھر کا خیال ہے کہ یہ آندھی اس تحریر کو ہر قاری تک پہنچانے میں ممد و معاون ہو گی جبکہ اُدھر والی کوشش ہے کہ اسی آندھی سے اس کے لفظ لفظ کو فضائے بیکراں میں تحلیل کر دیا جائے۔ لیکن پپو کے خیال میں بات کتاب کی نہیں بلکہ اصل مسئلہ کچھ اور ہے کیونکہ کتاب کے انکشاف سے پہلے دھڑا دھڑ شمولیتوں کا پروگرام تقریبا انجام کو پہنچایا جا چکا ہے اور یہ دھڑا دھڑ شمولیتوں کا پروگرام خود اس بات کا ثبوت ہے کہ صرف ماڑے مسکین عوام پر انحصار مثبت نتائج کے لئے کافی و شافی نہیں سمجھا گیا تھا۔ پپو کا کہنا ہے کہ یہ دھڑا دھڑ شمولیتوں والے کتابوں کے بجائے پرچیوں پر ایمان رکھتے ہیں سو مسئلہ کتاب نہیں یقینا کچھ اور ہے۔

یہ بھی پڑھئے:   میں خمیازہ ساحل کا

میں نے پوچھا کہ اگر مسئلہ کتاب نہیں تو پھر یہ شور و غوغا کیوں اور اصل مسئلہ ہے کیا ہے؟
اصل مسئلہ وہ ہمت بخش ذرائع ہیں جو بی بی کو صاحبہ کتاب بنانے پر تلے ہوئے ہیں اور یہ سوال بھی اہم ہے کہ اس کتاب کا اصل ہدف کون ہے؟ کیونکہ جسے ہدف بتایا جا رہا ہے اُس کے بارے میں ڈنگی ٹیڑھی خبریں تو ہمیشہ سے زباں زد عام ہیں۔ جس کی ستر سالہ زندگی میں صدق اور امانت کی ایسی تیسی کے حوالے سے کئی اعترافی بیانات اور حقائق پہلے ہی سے ریکارڈ پر موجود ہوں اُس کی صحت پر گیارہ ماہ کی مختصر رفاقت کی داستان کیا مزید فرق ڈال سکتی ہے۔ پپو کے خیال میں کتاب کا ہدف اس کا ہیرو یا ولن نہیں بلکہ شاید اُس کی کہانی کا قلمکار اور پیشکار ہو اور شاید یہ قلمکاری اور پیش کاری کئی اور قلمکاریوں اور پیش کاریوں کا کچا چٹھا کھولنے کا رحجان رکھتی ہو۔

تو پپو تم پھر یہ کیوں کہتے ہو کہ کتاب سے کوئی فرق نہیں پڑنے کا؟
میری جان ہمارے ہاں سچ ماننے کا رواج ہمیشہ سے بولنے والے کی حیثیت اور مرتبے سے مشروط ہے۔ ہمارے ہاں بعض مرتبے اور حیثیتں اتنی مسلّم ہیں کہ وہ دن کو رات کہیں تو صرف لوگ مانتے ہی نہیں بلکہ واقعی رات ہو جاتی ہے۔ وہی مرتبہ دار اور صاحبان حیثیت اس کتاب کے پیچھے ہمت بخش ذرائع تلاش کر رہے ہیں۔ اِدھر کتا ب آئی اور اُدھر اُس کی لکھائی چھپائی سب کچھ کے بارے ایک بین الاقوامی سازش کا پلاٹ تیار ہے جس پر ایک نئی قلمکاری اور پیش کاری کی تازہ کار آندھی جھلائے جائے گی۔ کتاب پیچھے رہ جائے گی اور ذرائع ابلاغ کتاب کے متن سے زیادہ اُس کی لکھائی چھپائی کے مسائل پر بحث و تمحیض کا نیا ڈول ڈال دیں گے۔ لہذا کتاب سے اگر کسی کو فرق پڑا تو لکھائی چھپائی والوں کو پڑے گا باقی رہے نام اللہ کا۔ ذرا سی ترمیم کے ساتھ بقول فراز

یہ بھی پڑھئے:   سرد جنگ سے نکلنے کی واحد صورت

فراز ہم مسخری کے دن یاد آرہے ہیں
کہ میں اُسے پڑھ رہا ہوں اور کتاب دیکھے

Views All Time
Views All Time
594
Views Today
Views Today
1

مجتبیٰ حیدر شیرازی

مزاج طبیعت سے شاعر،پیشے سے وکیل اور فکرو عمل سے سیاسی کارکن ہیں۔انہوں نے شکستہ جھونپڑوں سے زندان کی کوٹھڑیوں تک ،دلدل کی ماری گلیوں سے اقتدار محل کی راہداریوں تک زندگی کے سارے چہرے دیکھے ہیں ۔وہ جو لکھتے ہیں سنائی اور دکھائی دیتا ہے۔

Leave a Reply