پچھتاوا

Print Friendly, PDF & Email

آفس سے واپسی پر ماریہ جیسے ہی اپنے علاقے میں داخل ہوئی تو وہاں لوگوں کا رش دیکھ کر اسے کافی تشویش ہوئی۔ ذرا غور کرنے پر اندازہ ہوا کہ آگے ٹائر جل رہے تھے۔’صبح تو سب ٹھیک تھا ، یہ ا ب کیا ہوگیا۔ اللہ خیر کرے کہیں کسی ایکسیڈنٹ پر احتجاج نہ ہورہا ہو۔ بجلی کی بندش کا معاملہ بھی ہوسکتا ہے۔ ‘
اسی طرح اندازے لگاتے ہوئے اس نے وہیں قریب کھڑے شخص سے معاملے کی بابت استفسار کیا تو وہ کہنے لگا ‘ کچرے اور آلودگی کے خلاف احتجاج ہورہا ہے ۔’
کچرے اور آلودگی کے خلاف احتجاج وہ بھی ٹائر جلاکر ، وہ تاسف اور طنز کی ملی جلی کیفیات میں گھر کر سوچنے لگی کہ اس قوم کا کچھ نہیں بننے والا۔ ساتھ ہی جھنجھلاہٹ بھی سوار تھی کہ وہ گھر سے کم از کم ڈیڑھ دو اسٹاپ کے فاصلے پر تھی اور اس احتجاج سے گزر کر گھر تک جانا دشوار نہیں بلکہ تقریبا نا ممکن تھا ۔ اس نے رکشہ ڈرائیور کو سامنے گلی میں جانے کا اشارہ کیا ۔ جیسے ہی اس سڑک سے ملحقہ گلی میں رکشہ داخل ہوا تو وہ پوری گلی ہی کسی تعمیراتی کام کے باعث ادھیڑ کر رکھی ہوئی تھی ۔ اس نے رکشے والے کو تسلی دی :
‘آپ فکر نہ کریں مجھے راستہ معلوم ہے ۔میں کرایہ آپکو بڑھا کر دوں گی ۔ ‘
(کرایہ بڑھانے کی بات ماریہ نے یونہی نہیں کی ۔ اس کی عادت تھی کہ جب کبھی رکشے کا سفر کرتی اور کسی غیر معمولی حالات کا سامنا ہوتا تو وہ خود سے بڑھا کر کرایہ دیتی ۔ غریب ٹھیلے والوں سے سبزی پھل خریدتے زیادہ مول تول نہیں کرتی ۔ انجان لوگوں کی مدد کرنے لئے بھی کبھی نہیں سوچتی تھی ۔ ہمدردی و انسان دوستی کا سبق صرف اس کی زبان پر نہیں ہوتا بلکہ خود بھی اس پر عمل پیرا رہتی ۔ کئی بار نیکی کا بدلہ برائی یا دھوکے کی صورت سامنے آیا لیکن وہ بھی اپنی عادت سے مجبور تھی ۔ ماریہ کا کہنا تھا کہ جب لوگ اپنی برائی پر ثابت قدم ہیں تو میں کیوں گھبرا کر اچھائی کا راستہ چھوڑ دوں ۔ )
وہ ڈرائیور کو ایک کے بعد ایک ہدایت دیتی رہی ۔ کہیں قنات لگی نظر آئی تو اس نے رکشہ دوسری جانب ڈائیورٹ کروادیا ۔ اپنے علاقے کا ایک ایک راستہ اسے ازبر تھا لیکن ایک گلی سے دوسری میں جانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہاں اس سے چوک ہوئی کہ وہ رکشہ ایک انجان راستے پر چل پڑا ، جس کی دوسری بڑی وجہ رات کا وقت تھا ۔ وہ رات نہیں تھی، شام کے ساڑھے سات آٹھ بج رہے تھے لیکن سردیاں شروع ہوچکی تھیں اور اس وقت کافی اندھیراچھاگیا تھا ۔

ماریہ راستے پر غور کرتی رہی کہ شاید کوئی سرا ملے لیکن ناکام رہی ۔ ایک طویل سنسان سڑک شروع ہوگئی جس کے ایک طرف جھاڑیاں اور دوسری طرف قبرستان کی دیوار سے جھانکتی قبریں ۔ راستہ انتہائی تاریک ہونے کے باعث پر اسرار لگ رہا تھا ۔ اماوس کی رات میں اسٹریٹ لائٹ سے بے بہرہ سڑک پر رکشہ دوڑے جارہا تھا اور رکشے کی مدھم ہیڈ لائٹ گھپ اندھیرے کو شکست دینے کی ناکام کوشش کررہی تھی ۔ وہ خطرناک حد تک بولڈ ہونے کے باوجود بھی پریشانی کا شکار تھی کہ آخر اس طویل سڑک کا کوئی اخیر بھی ہے کہ نہیں ؟

ماریہ ساتھ رکشہ ڈرائیور کو بھی کہنے لگی کہ’ شاید رستہ بھٹک گئے ہیں ۔ یہ قبرستان تو میرا دیکھا ہوا ہے لیکن ہم کس سرے پر پہنچ گئے ہیں نہیں معلوم ۔ باہر نکل کر ہی کسی سے پوچھنا پڑے گا ۔’
ایسی سنسنان سڑک پر جہاں کوئی آدم زاد تک نہیں تھا، اچانک ایک شخص ٹھیلا گھسیٹتا ہوا نظر آیا اور رکشے کے قریب سے ہوکر دوسری جانب چلا گیا ۔ جب وہ آگے بڑھ گیا تو اس نے رکی ہوئی سانس بحال کی اور ہنس کر ڈرائیور سے کہنے لگی ، ‘شکر ہے ہارر مووی کی طرح یہ کوئی بھوت نہیں تھا ، ورنہ میں تو سچ مچ ڈر گئی تھی ۔ ‘رکشہ والا بھی اس کی بے تکی بات پر زور زور سے ہنسنے لگا ۔
قبرستان کے کونے پر کچھ روشنی نظر آئی جہاں کچھ نوجوان لڑکے کھڑے تھے ۔ ماریہ نے فورا رکشہ رکوایا اور ان لڑکوں سے راستے کے بارے میں پوچھا تو ایک لڑکا بلوچی یا سندھی لہجے میں کہنے لگا ‘باجی آپ غلط راستے پر نکل آئیں ۔’ انہوں نے ایک لڑکے کو جو بائیک پر تھا ، راستہ دکھانے ساتھ بھیج دیا ۔ ایک تو وہ لڑکا اکیلا تھا ، دوسرے اس نے کافی فاصلہ برقرار رکھا جس سے کسی حد تک اطمینان رہا ۔ ورنہ تو حالات کے پیش نظر موبائل اور پیسے پر تو پہلے ہی فاتحہ پڑھ دینا چاہئے ۔ خیر وہ لڑکا راستہ دکھا کر واپس اسی راستے کی جانب چل دیا ۔ اس لڑکے کا انہوں نے بہت شکریہ ادا کیا کہ وہ اس وقت ایک فرشتہ ہی ثابت ہوا تھا ۔ ماریہ کی چھٹی حس اتنی تیز تو تھی کہ اسے اچھی طرح سمجھ آگیا تھا کہ وہ فرشتہ انہیں راستہ دکھانے کے بعد واپس وہیں منشیات لینے جارہا تھاکیونکہ ان کے اچانک آن دھمکنے سے اس کے کام میں خلل پڑ گیا تھا ۔
گھر پہنچ کر ماریہ نے جیسے ہی سکھ کا سانس لیا ، اچانک جانا پہچانا نمبر موبائل فون کی اسکرین پر چمکنے لگا لیکن اسے حیرت تھی کہ اتنے عرصہ بعد کیسے یاد آگئی ۔ واحد یہی نمبر تو تھاجو اسے زندگی میں کبھی یاد ہوا ، ورنہ تو اپنا نیا فون نمبر بھی یاد کرنے میں اتنا وقت لیتی تھی ۔ شناختی کارڈ ، اکاونٹ نمبر سمیت کوئی بھی اہم نمبر اسے کبھی یاد نہیں ہوا ۔ اس نے اچانک لپک کر فون اٹھایا ۔
دوسری جانب شاویز کی گھمبیر آواز تھی جس کی وہ آج تک اسیر ہے ۔
‘السلام علیکم ! کیسی ہو؟ ‘
‘میں ٹھیک ہوں ، تم سناؤ کیا حال ہے ، کیسے یاد آگئی اچانک ؟’
‘مجھے تو اکثر یاد آجاتی ہے تمہاری ، کال کرکے سال چھ مہینے میں یاد بھی دلاتا رہتا ہوں تمہیں ، تمہارا ہی کچھ اتا پتا نہیں چلتا ۔’
‘ارے ہم رہے ستم ہائے روزگار بھولتے کب ہیں کسی کو ، بس صبح و شام کے دائرے سے ہی فرار نہیں مل رہا ۔ ‘
‘فرحان (اس کا سابق اور ماریہ کا موجودہ کولیگ ) نے بتایا ہے کہ تم کچھ دن قبل ہی کربلا سے ہو کر آئی ہو ۔’
‘ہاں ٹھیک بتایا ہے ۔ ایران اور عراق گئی تھی ۔ یوم عاشور حرم مولا میں کرنے کی دیرینہ خواہش پوری ہوگئی ۔’
‘یار اسی لئے کال کی ہے تمہیں ، مجھے تھوڑی سی خاک شفا چاہیے اگر تم ساتھ لائی ہو تو۔ ‘
‘خاک شفا اب کہاں آسانی سے دستیاب ہوتی ہے ۔ مما کے پاس پہلے کی رکھی ہوئی ہے ، میں تمہیں اس میں سے لے کر دیدوں گی وہاں کے تبرک کے ساتھ ۔’

یہ بھی پڑھئے:   طوائف - علینہ ارشد

پھر اس کے بعد دونوں باتوں میں مصروف ہوگئے اور دونوں ملکوں کے کلچر کا تقابل شروع ہوگیا کہ کہاں عاشورہ منانا زیادہ اچھا لگتا ہے ، وغیرہ وغیرہ ۔ یوم عاشور کے سلسلے میں کئے جانے والے انتظامات پر بات ہوئی اور نہ جانے کون کون سی باتیں ۔ ساتھ شاویز نے ہمیشہ کی طرح ملنے کی خواہش کا اظہار کیا اور ماریہ کا جواب ہمیشہ کی طرح یہی رہا کہ جب وہ کہے لیکن وہ وقت ان پانچ چھ سالوں میں ایک بار بھی نہیں آیا تھا ۔
شاویز اور ماریہ بہت اچھے دوست تھے ۔ دوست ہی کہوں گی کیونکہ ان دونوں کے درمیان کوئی افئیر نہیں تھا ۔ نہ کبھی ساحل کنارے ٹھنڈی ریت پر ساتھ چہل قدمی کی اور نا ہی ہاتھ تھام کر ساتھ جینے مرنے کے عہد و پیمان کئے بلکہ ماریہ نے ہی ایکبار اس کا ہاتھ پکڑا تھا اور پیشانی کو چھو کر اس کا بخار چیک کیا تھا ۔وہ تھی ہی ایسی چلبلی اور نا عاقبت اندیش ۔ دونوں کے درمیان ایک ان کہی تھی جسے وہ دونوں سمجھتے تھے ۔ وہ ماریہ کا کولیگ تھا ۔ ماریہ نے صرف ایک مہینہ ہی اس کے آفس میں بطور انٹرنی جاب کی لیکن اتنے کم عرصے میں دونوں کے درمیان دوستی اور ذہنی ہم آہنگی کا رشتہ استوار ہوگیا تھا ۔
شاویز کا غم جاناں غم دوراں میں تبدیل ہوچکا تھا اور اس کے مزاج میں سسٹم کی ناانصافی اور دنیا کی بے اعتنائی پر کافی برہمی تھی ۔ماریہ کو اس کی برہم مزاجی سے ہی پیار تھا ۔ شاویز کی آنکھیں بہت حسین تھیں جن میں ایک جہاں آباد تھا ۔ اس کی آنکھوں میں اداسی کے ساتھ ساتھ پیار اور ستائش تھی ماریہ کے لئے۔وہ تھی ہی اتنی پیاری اور نٹ کھٹ کہ ہر کوئی ملنے کے بعد اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا مگر وہ تو اس کی دیوانی ہوچکی تھی کیونکہ شاویز کی نگاہوں میں اس کے لئے ایک احترام اور خلوص تھا ۔ وہ آج تک شاویز کی خوبصورت اور بولتی ہوئی آنکھوں کے سحر سے نہیں نکل سکی۔ اس کے بعد ہر صورت میں اسے ہی کھوجا۔
آفس چھوڑنے کے بعد بھی اس سے فون پر رابطہ رہتا۔ کبھی ملنے کا دل چاہتا تو اس کے آفس چلی جاتی اور دونوں گھنٹوں بیٹھ کر باتیں کرتے ۔ وقت کم پڑجاتا لیکن باتیں تھیں کہ ختم ہی نہ ہوتی تھیں ۔ کبھی سیاست پر بات ہوتی ، کبھی ماریہ کے ہاتھ کی کالی لال ڈوریوں سے بندھی عقیدت کو لے کر بات ولایت تک جاتی ، میثم تمارؓ ، ابو ذر غفاریؓ اور عمار یاسرؓ کی وفاؤں کا تذکرہ ہوتا ، کبھی پرانے گانے گاتے ، فیض اور ناصر کاظمی کو گنگناتے، احمد فراز اور جالب کی نظمیں ایک دوسرے کو سناتے ، منٹو اور جون کا دور چلتا ، شیکسپیئر کو وہ ایلیٹ کلاس کا لکھاری کہتا اور ہیملٹ ، کنگ لئیر ، جولیس سیزر اور کامیڈی ٹویلفتھ نائیٹ سمیت متعدد ناولز کے حوالے دیتا ، ڈی ایچ لارنس کے بولڈ ناولز میں اس کی زندگی کے حقائق اور تلخیوں کی بات ہوتی ، کبھی وہ دونوں کارل مارکس ، چی گویرا، بھگت سنگھ اوران جیسے کامریڈ اور سوشلسٹ لیڈرز کی حالات زندگی پر گفتگو کرتے ۔ ماریہ شاویز سے ملنے سے پہلے ان انقلابیوں کو محض نام سے ہی جانتی تھی۔ اسے ان سے متعارف کروانے والا وہی تھا ۔ اس کے کیبن میں انقلابیوں کے پوسٹرز تھے جن کی وہ صبح شام پوجا کرتا تھا۔ وہ ایسا ہی پاگل ، جذباتی ، تلخ اور حساس تھا ۔ وہ دونوں جب بھی ملتے ایسا لگتا کہ ذہن و روح کی ساری تشنگی ختم ہو گئی ہے لیکن ایک بے نام کسک دل میں ضرور رہ جاتی ۔
ذہنی ہم آہنگی کتنی بڑی نعمت ہے اس کا ادراک بھی ماریہ کو شاویز سے مل کر ہوا۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں محبت ہوتی ہی اس سے ہے جس میں ہمیں ہمارا عکس نظر آئے ، ورنہ محض اٹریکشن ہوتی ہے جو جلدی ختم ہوجاتی ہے ، اور پھر بقول جون
کیا ستم ہے کہ اب تیری صورت ، غور کرنے پہ یاد آتی ہے
وقت ریت کی طرح ہاتھوں سے پھسل گیا ۔ ماریہ یہ سوچ کر شاویز سے کچھ نہ کہہ سکی کہ وہ خود سے پانچ سال چھوٹے لڑکے سے کیسے اظہار محبت کرسکتی ہے اور شاویز ماریہ کی خوبصورتی اور ذہانت کو لیکر متذبذب رہا ۔ شاویز کا اس کی والدہ نے رشتہ طے کردیا تھا ، گوکہ ماریہ نے اس کو گرمجوشی سے مبارکباد دی تھی لیکن دل پر ایک بوجھ سا آگیا تھا ۔ ایک بے نام اداسی نے اس کے دل میں گھر کرلیا تھا لیکن وہ ambitious لڑکی اپنا کیرئیر بنانے میں مگن ہوگئی ۔ شاویز ہی کی مدد سے اسے ایک آفس میں جاب انٹرویو تک رسائی ملی اور بالآخر وہ انٹرویو پاس کرکے اپنی مطلوبہ جاب حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ۔
شاویز کو اپنے عراق و ایران کے سفر کی روداد سنانے کے بعد فون رکھ کر وہ اپنی سوچوں میں گم ہوگئی اور ہمیشہ کی طرح سو د زیاں کا حساب لیکر بیٹھ گئی ، ‘ سمجھ نہیں آیا کہ کون جیتا اور کون ہارا۔ اپنی صحرا جیسی زندگی دیکھوں تو لگتا ہے کہ میں ہار گئی ہوں لیکن جب اس کا سال چھ مہینے بعد بار بار پلٹنا سوچو تو لگتا ہے ہم دونوں ہی ہارے ہیں۔ محبت دو طرفہ معاملہ ہے ورنہ میں زندگی میں کبھی کسی مقام پر نہ ہارتی۔ سالوں گزرگئے لیکن اب بھی ایک دوسرے کے خلوص پر ذرہ برابر شک نہیں ہے۔ شادی کے کچھ ماہ بعد ہی شاویز نے مجھے پروپوز کیا تھا اور میں نے صاف انکار کردیا ۔ اب دو بچے ہیں اس کے ، ایک مکمل فیملی ، میں کیسے خود غرض بن سکتی ہوں۔ جو شخص تب سماج سے لڑ نہیں سکا اور محبت میں کنفیوژڈ رہا۔ اپنے آگے میری خوبصورتی کو لیکر خوفزدہ رہا۔ اس کا ارادہ پھر متزلزل ہوجائے تو ؟؟؟ کاش مجھے اپنی طرح کا کوئی بولڈ بندہ ملا ہوتا تو حالات یہ نہ ہوتے ۔ ذہنی ہم آہنگی اور خلوص بہت مشکل سے نصیب ہوتے ہیں۔ بہتر ہے کہ اسی وقت ایک دوسرے کی قدر کی جائے کیونکہ بعد میں ہمارے پاس پچھتا وے کے سوا کچھ نہیں بچتا ۔

Views All Time
Views All Time
538
Views Today
Views Today
1

Leave a Reply