یوم خواتین اور حل طلب مسائل کا انبار

Print Friendly, PDF & Email

خدا کی بنائی کائنات میں جہاں انسان اشرف المخلوقات ہونے کے اعلیٰ ترین مرتبے پر فائز ہے وہیں، بخشی گئی اس تعظیم کی قدرے بھاری قیمت گاہے بگاہے چکاتا ہوا آیا ہے جبکہ عورت صنف نازک ہونے کی وجہ سے سانس سانس اس بار گراں کی بھاری قیمت چکاتی آئی ہے۔
دنیا میں جہاں اور بہت سے دن منانے کا رواج پڑچکا ہے وہیں عورتوں کے حقوق کا عالمی دن "یوم خواتین”منانے کا آغاز آج سے کم و بیش سو سال پہلے ہوا۔وقت کے ساتھ ساتھ یہ دن ساری دنیا میں منایا جانے لگا یہاں تک کے اس دن کی افادیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اقوام متحدہ نے بھی 8 مارچ کو یوم خواتین مان کر 1975 میں اپنے کیلنڈر میں شامل کرلیا۔ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ ممالک کی خواتین کی زندگیوں کا جائزہ لیا جائے ایک واضح فرق صاف نظر آئے گا کہ مغربی ممالک میں عورت کے حقوق کو قانون اور ریاست کی طرف

سے مکمل تحفظ حاصل ہے جس کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک کی عورتوں کی زندگی قدرے بہتر ہے ۔
یہ تو ہوئی بات قانون اور ریاست کے معاملات کی،مگر جہاں بات آتی ہےمعاشرتی رویوں اور گھریلو مسائل کی تو مجھے مشرق اور مغرب کی عورت ایک ہی صف میں کھڑی نظر آتی ہے۔عورت ہونے کی پاداش میں جبری طور مقدروں میں لکھے گئے مصائب دنیا کی ہر عورت کو جھیلنے ہی پڑتے ہیں۔

کس قدر حیرت انگیز بات ہے کہ ایک صدی سے یوم خواتین منایا جارہا ہے مگر پھر بھی دنیا کا کوئی ملک مکمل طور نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہا یہاں تک کہ امریکہ جیسا ملک جہاں عورت مرد کے شانہ بشانہ کام کرتی مگر بے پناہ مسائل میں گھری نظر آتی ہے۔جس کی چھوٹی سی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ بچے کی پیدائش پر امریکن عورت کو 12 ہفتے تک کی میٹرنٹی لیو دی تو جاتی ہے مگر وہ (without pay) بنا تنخواہ کے ہوتی ہے۔اس وجہ سے ایک کثیر تعداد بچے کی پیدائش کے 3/4 ہفتے بعد ہی اپنے کام پر واپس آجاتی ہے جو کہ ایک انتہائی غیر صحت مند اور غیر انسانی سلوک ہے ۔ جس محاذ کو سر کرنے کی ابتدا مغرب نے آج سے سو سال پہلے کی مگر پھر بھی خاطر خواہ نتائج نا بر آمد ہوسکے۔

یہ بھی پڑھئے:   میں پیپلزپارٹی کو ووٹ کیوں دیتا ہوں

دیکھا جائے تو آج سے 14 سو سال پہلے اسلام نے عورت کو اس قدر حقوق دئیے جس کی مثال دنیا کے کسی اور مذہب اور معاشرے میں نہیں ملتی۔ہمارا مذہب اسلام،ہمارا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان،پھر بھی میرے وطن کی عورت پیدائش سے لے کر آخری سانس تک جس کرب اور درد کا مقابلہ کرتی ہے اس پر لکھنے بیٹھیں تو کئی دن تک مکمل نہ کرسکیں۔جس گھر میں پیدا ہوتی ہے بابل کا وہ آنگن ایک دم سے پرایا ہوجاتا ہے جب وہ بیاہ کر پیا دیس سدھارتی ہے۔ماں باپ کے گھر نازوں پلی بیٹی ،دن کو تتلیاں پکڑتی رات کو خوابوں میں پریوں کے دیس جگنوئوں کے پیچھے بھاگتی بیٹی جب ایک شادی شدہ عورت بن جاتی ہے تو اس کا دن رات کوہلو کے بیل کی طرح سسرال،خاوند اور بچوں کی خدمت میں گذرتا ہے،بچوں کو پال پوس بڑاکرتی عورت کو اپنا آپ یاد تک نہیں رہتااور یقینا ہر عورت یہ سب فرائض دل و جان سے ادا کرتی ہے کیوں کہ بے لوث محبت اور خدمت رب کائنات نے اس کے خمیر میں گوندھ رکھا ہے۔

مگر المیہ دیکھئے کہ جیسے ہی خاوند کی آنکھیں بند ہوئیں عورت کا گھر پھر بدل جاتا ہے۔اب وہ گھر شوہر کے گھر سے بیٹے کے گھر میں تبدیل ہوجاتا ہے۔میں نے آج تک نہیں سنا کہ ایک بیوی کے انتقال کے بعد لوگ شوہر کے لئے سوچنا تو دور کی بات ایسا بول بھی بول دیں فلاں شخص بیٹے کے گھر میں رہتا ہے یا فلاں شخص اپنے والد کے گھر رہتا ہے۔مرد کے لئے گھر تاحیات اسی کے نام سے منسوب رہتا ہے،مرد جہاں بھی رہے سب گھر اس کے رہتے ہیں۔کس قدر المیہ ہے اور دنیا میں ایسا کوئی قانون نہیں جو عورت کے لئے اس درد کو سہل کرسکے کیوں کہ یہ ایک رویہ ہے جس کا تعلق انسانی سوچ اور احساسات سے جڑا ہوا ہے۔

ایک زندگی میں سینکڑوں بار دھوپ چھائوں کے موسم سہتی عورت،کبھی والدین کی بیٹے پر زیادہ توجہ اس کے معصوم دل کو درد سے آشنا کرجاتی ہے،کبھی شوہر اور سسرال والوں کے تلخ رویے اور جسمانی و ذہنی تشدد اس کی عزت نفس کا گلا گھونٹ ڈالتے ہیں۔یہاں تک کہ بسا اوقات اولاد تک ماں کی مامتا کو زخمی کرتی نظر آتی ہے۔

یہ بھی پڑھئے:   خواتین کا عالمی دن: کلارا زیٹکن سرخ سلام

یوم خواتین پر ریلیاں نکالی جاتیں ہیں،سیمینار منعقد کیئے جاتے ہیں۔مجھے کہتے ہوئے سخت تکلیف ہورہی ہے کہ میں ذاتی طور پر ایسی کئی خواتین کو جانتی ہوں جو ایک شادی شدہ مرد سے شادی کرکے ایک عورت کا حق پامال کرچکی ہیں اور یوم خواتین پر خوب بڑھ چڑھ کر تقاریر کررہی ہوتی ہیں۔

میں ایسے بے شمار مرد حضرات کو جانتی ہوں جن کو یوم خواتین پر عورتوں کے حقوق کے نام پر پیٹ میں شدید مروڑ اٹھتے ہیں اور وہ خوب آگے آگے رہتے اس دن کی افادیت اجاگر کرنے میں حالانکہ یہ مرد حضرات اپنے گھروں میں بیٹھی وفادار،خدمت گذار بیویوں کو دھوکے میں رکھ کر باہر عشق و محبت فرمارہے ہوتے ہیں۔

پل پل جیتی پل پل مرتی عورت کی زندگی صرف ایک دن کے منانے سے بدلی نہیں جاسکتی جب تک کہ ہم ان تمام مظالم کی تلافی کا آغاز اپنے گھر سے نہیں کریں گے۔

میری ناقص رائے کے مطابق عورت کی زندگی میں لاتعداد مسائل و مصائب کا ذمے دار صرف ایک مرد ہی نہیں بلکہ ایک عورت بھی برابر کی شریک ہے ۔کبھی ایک ماں کی صورت بیٹے بیٹی میں بھید بھاؤ کرتی،کبھی ایک ساس،نند بھاوج،بہو کی صورت۔جس دن ہم بحیثیت معاشرہ اپنی اس بیمار سوچ اور بیمار رویئے میں تبدیلی کا آغاز خود سے کریں گے اس دن شاید ہمیں یہ یوم خواتین منانے کی ضرورت ہی نہ رہے۔

اور اگر ہم یوم خواتین منا بھی رہے ہوں گے تو ایک خوشی ہوگی،احساس تشکر ہوگا۔ اور اس دن قلم کار کا قلم درد اور تلخی کے بجائے مسرت اور خوشی لکھے گا۔

Views All Time
Views All Time
426
Views Today
Views Today
1

Leave a Reply