مجھے کیا برا تھا مرنا ،گر اک بار ہوتا

Print Friendly, PDF & Email

Aamna Ahsanمیرا بچپن لاہور سمن آباد میں گزرا، سکول سے لے کر کالج تک ،اور کالج سے یونیورسٹی تک میرے %99 دوست شیعہ تھے ۔ (بیشتر ابھی تک دوست ہیں )۔آج بھی میرے %50 دوست شیعہ ہیں ۔
میں نے کبھی یہ محسوس نہیں کیا کہ ان سے دوستی نے مجھے کبھی کوئی نقصان پہنچایا ہو، بلکہ میں نے زیادہ تر کو بہترین انسان اور مخلص دوست پایا ۔
ایسا شاید اس لئے بھی ہے کہ بچپن سے ہی میری والدہ نے ہمیں یہ تلقین کی کہ ہر مذہب قابل احترام ہے، ہمیں کوئی حق نہیں کے ہم کسی کے مذہب یا مذہبی رسومات پر کوئی تنقید کریں۔
ہمارے گھر میں ہمیشہ ہر مذہب کو عزت کی نظر سے دیکھا گیا، انسان کو انسان سمجھا گیا، میری والدہ محرم کے مہینہ میں ہماری خاص تربیت کرتیں، پانی نہ ضائع کرنے کی تلقین کرتیں، زور سے ہنسنے پر پابندی لگا دیتی،اسی طرح کی بہت سی چھوٹی چھوٹی باتیں میرے بچپن کا حصّہ رہیں۔
ان سب باتوں سے یہ فائدہ ہوا کہ میرا انسانیت پر یقین پیدا ہوا، میں انسان کو اس کے مذہب ، پیشے ، رنگ اور نسل سے نہیں بلکہ اک انسان ہونے کی حثیت سے عزت دیتی ہوں۔
22 جون کا دن بھاری دن تھا،امجد صابری کا قوالی پڑھنا جائز تھا یا نہیں، انہیں شہید کہنا چاہیے یا نہیں، یہ میری بحث نہیں اور یہ سن کر اور پڑھ کر بے حد افسوس ہوا ۔
کوئی قوم اتنی بے حس کیسے ہو سکتی ہے؟ اک بے قصور ، نہتہ شہری بے رحمی سے قتل کیا جائے اور آپ افسوس کی بجائے ،اس بحث میں پڑ جائیں کہ مرنے والا شیعہ تھا یا سنی؟ قوال شہید ہو سکتا ہے یا نہیں؟ میڈیا اتنی کوریج کیوں دیں رہا ہے؟وغیرہ وغیرہ
اک اور بات جس نے مجھے اوپر اتنی تمہید باندھنے پر مجبور کیا، وہ ہے فیس بک پر موجود اک پوسٹ، اک پوسٹ فارورڈ ہو رہی ہے، جس کے مطابق خرّم زکی سے( جنھیں 7 مئی 2016 ء کو قتل کیا گیا)
سے شروع اس سلسلہ میں شیعہ برادری کو ٹارگٹ بنا کر قتل کیا جارہا ہے ۔
اور کل رات فرحان علی وارث ( نوحہ خواں ) پر فائرنگ کا واقعہ اس بات کو سچ ثابت کرتا ہے ۔
میں یہ پڑھ کر تھوڑی حیران اور تھوڑی پریشان ہو گئی ۔
میرے خیال میں گھریلو سطح پر ہماری پرورش میں کوئی کمی رہ رہی ہے ، شاید اب والدین بچوں کو مذہب کی حرمت سمجھانے پر غور نہیں کرتے یا پھر کسی وجہ سے سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ شاید ہم اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ اگر ہمارا بچہ کل کسی کو مذہب کے نام پر مار دیں ، تو ہم مارنے والے کو نہیں ، مرنے والے کو غلط قرار دیں گے۔
کیا ہم کسی کو مذہب کے نام پر ناحق قتل کر سکتے ہیں ؟ اللّہ پاک نے تو نبی پاک ؐ کو صرف پیغام پہنچا دینے کا حکم دیا، یہ نہیں کہا کہ جو نہ مانے اسے قتل کر دو ، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کس مذہب پر چل پڑے ہیں؟ ہم کس کی پیروی میں لوگوں کو ناحق قتل کر رہے ہیں؟ اور اس پر ستم یہ کہ افسوس کرنے والوں کو بتا رہے ہیں کہ مرنے والا قوال تھا ، شہید نہ بولو ، اب ان گانے بجانے والوں کا تو یہی "End” ہوتا ہے۔ زیادہ دکھ کا اظہار نہ کرو ۔
یعنی بے حسی کی ہر حد پار ۔
لکھتے لکھتے اب یہ خیال ستاتا ہے کہ نہ جانے کب کوئی ہمیں بھی اللّہ کا نافرمان سمجھ کر مار دے
بس اتنا ہی کہنا ہے کہ :
جب شہر کھنڈر بن جائے گا
پھر کس پہ سنگ اٹھاؤ گے
اپنے چہرے آئینوں میں
جب دیکھو گے ڈر جاؤ گے
فی امان اللّہ دوستو

Views All Time
Views All Time
321
Views Today
Views Today
2
mm

آمنہ احسن

آمنہ احسن کو کتابیں پڑھنے کا بہت شغف ہے

One thought on “مجھے کیا برا تھا مرنا ،گر اک بار ہوتا

  • 25/06/2016 at 8:01 شام
    Permalink

    Aap ne Firqa Likhny K Bajae Mazahab Ka Lafz Istemal Kiya Hy, Jo Mere Khayal Mein Theek Nahen. Edit Karny Waaly Hazrat Ko Bhe Dekhna Chaye Tha……. Ye Mera Zaati Khayal Hy Ghalt Bhe Hosakta Hy.

    Reply

Leave a Reply