ڈیرہ اسماعیل خان – پھول پھولوں کے جنازوں پر

Print Friendly, PDF & Email

ایک بار پھر ڈیرہ اسماعیل خان کی بات کرتے ہیں۔ "ڈیرہ کبھی تھا پھلاں دا سہرا – اب لہو لہو ہے”  پر ساعت بھر کے لئے میں آپ کو ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کُلاچی کے محلہ موسیٰ زئی لئے چلتا ہوں۔ ان سطور کے لکھے جانے سے 4 دن قبل ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کُلاچی میں انتہائی مطلوب طالبان کمانڈر ظاہر شاہ کی گرفتاری کےلئے آپریشن کیا گیا۔ آپریشن ان مصدقہ اطلاعات پر ہوا کہ مطلوب دہشت گرد اپنے گھر آیا ہوا ہے۔ فوج اور پولیس دونوں فورسز کے جوانوں نے اس آپریشن میں حصہ لیا۔ آپریشن کرنے والی ٹیم جونہی دہشت گرد طالبان کمانڈر ظاہر شاہ کے گھر میں داخل ہوئی دہشت گرد نے سکیورٹی اہلکاروں پر دستی بموں سے حملہ کر دیا جس میں ایک میجر سمیت تین سکیورٹی اہلکار شہید ہوئے جبکہ دہشت گرد کا ایک ساتھی بھی مارا گیا۔ جبکہ ظاہر شاہ کا باپ علی شاہ اور ماں زخمی ہوئے۔ دونوں زخمی حساس اداروں کی تحویل میں ہیں۔ موسیٰ زئی محلے میں اس آپریشن کے حوالے سے دو سوال اہم ہیں کہ اولاََ یہ کہ کیا مخبروں کی فراہم کردہ معلومات میں دہشت گرد ظاہر شاہ اور اس کے ساتھیوں کے پاس کسی قسم کے خطرناک اسلحہ بارے کوئی اطلاع نہیں تھی؟ ثانیاََ یہ کہ کیا آپریشن دہشت گردوں کی طرف سے دستی بم پھینکے جانے اور ابتدائی جانی نقصان کے بعد روک دیا گیا کہ دہشت گرد اور اس کا ایک یا اس سے زیادہ ساتھی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے؟ ایک اور بات جو درحقیقت چبھتا ہوا سوال ہے وہ یہ کہ اس آپریشن میں سکیورٹی فورسز کے تین افراد نے جام شہادت نوش کیا۔ مگر کیا وجہ ہے کہ ریاستی سطح پر اور پھر میڈیا نے بھی شہید میجر اسحٰق کا تو خصوصی طور پر ذکر کیا مگر شہید سپاہی فرحان اور سپاہی اویس شہید کا کہیں ذکر بھی نہیں؟ تلخ نوائی پر معذرت، کیا غریبوں کے بچوں کی قسمت میں بھی طبقاتی شہادت لکھ دی گئی ؟ دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن میں سکیورٹی فورسز کی قربانیاں لائق تحسین ہیں۔ 22 کروڑ لوگ اپنے ان بچوں کی قربانیوں پر رشک کرتے ہیں مگر شہدا کی درجہ بندی والا رویہ افسوسناک ہے۔ یہاں ایک اور بات کی طرف ریاست کی توجہ دلانا ضروری خیال کرتا ہوں۔ اس طبقاتی شہادت کے تاثر نے ہی کچھ لوگوں کو یہ کہنے پر مجبور کیا کہ "چند حالیہ واقعات کے متاثرین نے اس قربانی کو بھی عزت بحالی پروگرام کے طور پر استعمال کیا”

ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں مگر ایک بار پھر کچھ توقف کیجیے ہم پشاور چلتے ہیں جہاں کے پی کے پولیس کے ایڈیشنل آئی جی سید اشرف نور اور ان کے دومحافظ چند لمحوں قبل ایک خود کش حملے میں شہید ہوگئے ہیں۔ سید اشرف نور ایک بہادر اور فرض شناس افسر تھے۔ بلتستان کے سادات خانوادے پر غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ ان پر خود کش حملے کو شیعہ مسلم ٹارگٹ کلنگ سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ اے آئی جی پولیس سید اشرف نور کا تعلق بھی اس مظلوم شیعہ مسلم طبقے سے ہے جو 1985 سے تکفیری دہشت گردی کا شکار ہے۔ وہ پشاور کے علاقے حیات آباد میں واقع اپنے گھر سے دفتر کے لئے روانہ ہوئے تھے، راستے میں پہلے سے گھات لگائے خود کش حملہ آور نے اپنی موٹر سائیکل ان کی گاڑی سے ٹکرادی۔ اس خودکش حملے میں پندرہ کلو بارودی مواد استعمال ہوا۔ ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں پھلاں دا سہرا کہلانے والے اس شہر میں صدیوں سے روایت یہی تھی کہ لوگ شام کو روزمرہ کے امور نمٹا کر گھروں کو لوٹتے ہوئے بازاروں اور چوراہوں پر پھولوں کے ہار بیچنے والوں سے ہار اور گجرے خریدتے اور گھروں کو لے جاتے۔ ایسا آج بھی پورے سرائیکی وسیب میں ہوتا ہے مگر اب ڈیرے وال پھولوں کے ہار اپنے پیاروں کے جنازوں اور قبروں پر ڈالتے ہیں۔ شام ڈھلے موتیے کے ہار ہاتھوں میں لے کے گھومنے والے اور گھر لے جانے والی روایت ڈیرہ اسماعیل خان کی حد تک دم توڑتی جا رہی ہے۔ ہار ہاتھوں میں لے کر گھومنا اور گھر لے جانا اصل میں خوشی اور اطمینان کا اظہار ہے۔ خوشیاں ، اطمینان اور تحفظ تو ڈیرے والوں سے روٹھ سے گئے ہیں۔ یوں کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا کہ ڈیرہ اسماعیل خان کے حالیہ سانحات کو ہفتہ بھر ہونے کو ہے مگر کیا مجال کہ صوبائی حکومت نے کوئی نوٹس لیا ہو۔ غالباََ اسے ڈر ہے کہ اگر ڈیرہ اسماعیل خان میں جاری شیعہ مسلم ٹارگ کلنگ پر کوئی ایکشن لیا تو اس کا وہ ووٹ بینک متاثر ہو گا جو اس شیعہ نسل کشی کا فکری طور پر حامی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں دو دہائیوں سے جاری شیعہ مسلم نسل کشی پر اس شہر کی سیاست اور قیادت کی ملکیت کے دعوے دار حضرت مولانا فضل الرحمٰن بھی لب کشائی سے کتراتے ہیں۔ وہ دنیا بھر کے دکھوں کا بوجھ اٹھائے سیاست کے میدان میں سرگرم عمل ہیں۔ ان کی ظاہری شہرت ایک روشن خیال عالم دین یا یوں کہہ لیں کہ "صلح کل” مولانا کی ہے مگر درحقیقت قلبی طور پر وہ بھی سرائیکی بولنے والے شیعوں اور صوفی سنیوں کی ٹارگٹ کلنگ پر "مسرور” ہیں کیونکہ ان کے اندر کا "پاوندہ” ابھی زندہ ہے۔ پھر یہ بھی تو ان کے منصوبے کا حصہ ہی ہے کہ شہر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کیا جائے۔ کچھ عرصہ قبل مولانا فضل الرحمٰن نے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ” سپاہ صحابہ والے مجھے کہتے ہیں کہ آپ شیعہ حضرات کو کافر کیوں نہیں کہتے ؟ میں انہیں جواب دیتا ہوں کہ کیا ان کے سیاسی و شہری حقوق نہیں”؟ خطاب کا یہ ٹکڑا ان کی بنیادی فکر کا ترجمان ہے۔ ذہنی طور پر وہ بھی خلیفہ عبدالقیوم ہی ہیں لیکن 34 ہزار سے زیادہ شیعہ ووٹ زبان بند رکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ویسے 2013ء کے جوالائی میں ڈیرہ اسماعیل خان سنٹرل جیل سے طالبان کے حملے کے دوران بھاگنے والے سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے اہم دہشت گرد امجد فاروق معاویہ اور مولانا فضل الرحمٰن کے بھائی لطف الرحمٰن کے "تعلق خاطر” کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔ امجد فاروق معاویہ بعد ازاں شام میں سکیورٹی فورسز سے لڑتے ہوئے گرفتار ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھئے:   افغان سفارتخانے کے حکام کی جی ایچ کیو طلبی ، 76 دہشتگردوں کی فہرست دے دی

اس شہرِ بے اماں کا کوئی والی وارث نہیں۔ خود شیعہ آبادی تین بڑی جماعتوں ایم ڈبلیو ایم، تحریک جعفریہ (یہ اب شیعہ علماء کونسل کہلاتی ہے) اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ علامہ حامد علی موسوی میں منقسم ہے۔ پھر اندر کھاتے کچھ اور اختلاف بھی ہیں۔ نرم سے نرم الفاظ میں ہم اسے احقاقی فکر اور تقلیدی فکر کہہ سکتے ہیں۔ باہمی بداعتمادی اختلافات اور تنظیموں کی رسہ کشی کا شکار ڈیرہ کی کی شیعہ آبادی مرکزیت سے محروم ہے۔ ایسی مرکزیت جو اسے ایک سیاسی طاقت کے طور پر منظم کرے اور یہ پرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے ریاستی اداروں کو اپنی آواز سننے پر مجبور کر دیں۔ محض آواز سننے پر ہی نہیں بلکہ ان مؤثر اقدامات پر جو ڈیرہ میں اصلاح احوال کے لئے بہت ضروری ہیں۔ اپنی قومی شناخت کے بحران کا حل تلاش کرتی۔ ڈیرہ کی اکثریتی سرائیکی آبادی پر ٹوٹی فرقہ وارانہ دہشت گردی کیا محض شیعہ ٹارگٹ کلنگ ہے؟ بظاہر اس کا جواب ہاں میں ہے لیکن اگر دو دہائیوں کے دوران دہشت گردی کا شکار ہونے والے تمام افراد کی لسانی و قومیتی شناخت کو دیکھا جائے تو اعتراف کرنا پڑے گا کہ نقصان سرائیکی بولنے والوں کا ہی ہوا ہے۔ بہرطور ریاستی اداروں کی مجرمانہ غفلت، مختلف حکومتوں کی سرد مہری اور اب انصاف کے علمبردار عمران خان ، ان کی جماعت اور صوبائی حکومت تینوں کا دہشت گردوں کے سہولت کار کا سا کردار سب شرمناک ہے۔ لیکن کیا محض شرمناک کہہ اور لکھ دینے سے ڈیرہ والوں کے جو پیارے قبروں میں جا سوئے ہیں وہ لوٹ آئیں گے؟ سادہ جواب یہ ہے کہ جی نہیں۔ لمحہ عصر کا سچ یہ ہے کہ ڈیرے والوں کو اپنا دوست خود بننا ہو گا۔ عمران خان، فضل الرحمٰن یا اے این پی کی سیاست سے ان کے لئے خیرممکن نہیں۔ پیپلز پارٹی خود مسائل کا شکار ہے۔ انہیں اپنے اتحاد کی طاقت سے ہی سیاسی نمائندگی میں حصہ وصول کرنا ہوگا اس کے بغیر کم از کم مجھے اصلاح احوال کے ابتدائیہ کی دوسری صورت دیکھائی نہیں دیتی۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا "پھلاں دا سہرا” کے زندہ وارثوں کو سچائی اور ضرورتوں کا ادراک ہوتا ہے یا پھروہ پسند و ناپسند کی بنیاد پر ان قوتوں کی سیاسی طاقت نبتے رہیں گے جن میں سے ہر قوت کا تعلق وہ دہشت گردوں ، ان کے مائی باپ اور سہولت کاروں کے ساتھ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں؟ اس سادے سے سوال پر غور کرنے کے ساتھ ساتھ تلخ حقیقتوں کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھئے:   منظور پشتین، عوامی شکایات اور ریاست کی ذمہ داری
Views All Time
Views All Time
366
Views Today
Views Today
1

Leave a Reply