"یقیناََ ہمارا ارادہ کافر کھیلوں کو بند کر کے اسلامی کھیلوں کی شروعات کرنے کا ہے”
عرصہ دراز سے تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے کھلاڑی کرکٹ، ہاکی، اسکوائش، اسنوکر میں ایک آدھ ٹورنامنٹ جیت لیتے ہیں اور ساری قوم اگلے 25/30 سالوں تک اسی جیت کے وجد میں گرفتار رہتی ہے۔ زیادہ دور نہیں جائیں تو 1986ء میں جاوید میاں داد کے ایشیاء کپ کے لیجینڈری چھکے سے آخری بال پر ملنے والی فتح کے بعد تو پوری قوم پر کرکٹ کا سحر طاری ہو گیا جو 1992ء میں ورلڈ کپ میں عمران خاں ٹیم کی فتح کے بعد دو آتشہ ہو گیا اور پھر 2009ء میں یونس خاں نے ٹونٹی20 جیت کر اسے چو آتشہ کر دیا۔ سرفراز احمد بھی پیچھے نہیں رہے اور اس نے 2017ء میں چیمپئیز ٹرافی کے فائنل میں انڈیا کو ہرا کر قوم کو بلے بلے کروا دیا۔
ویسے تو پاکستانی قوم کبھی کسی معاملہ پر اکٹھی نہیں ہوئی مگر اس کرکٹ نے سارے اختلافات اور جھگڑے مٹا کر ہر اہم میچ پر پوری قوم کو متحد کر دیا۔ عام آدمی تو ایک طرف، دہشت گرد گروپ بھی اہم کرکٹ میچز میں جنگ بندی کرنے کا اعلان کرتے رہے اور پاکستان کی جیت کے لئے ساری قوم کے ساتھ مل کر دعائیں کرتے رہے۔
حقیقت بھی تو یہی ہے کہ جس طرح کی ہماری قومی کرکٹ ٹیم ہے، یہ اپنی کارکردگی سے کم اور قوم کی دعاؤں سے زیادہ چلتی ہے۔ ایک میچ میں یہ شیر کے منہ سے نوالہ چھین لانے والے جانباز ہوتے ہیں تو اگلے ہی میچ میں کاکروچ سے ڈر کر باتھ روم سے ننگے بھاگ آنے والے بچے بھی بن سکتے ہیں۔ یہ تو ویسے بھی مشہور ضرب المثل بنی ہوئی ہے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے بارے میں ایک ہی بات یقینی ہے کہ یہ ٹیم مکمل غیر یقینی ہے۔ ناممکن جیت کو آسانی سے جیتنا بھی اسی کا وصف ہے اور جیتا ہوا میچ ناقابل یقین طریقہ سے ہار جانا بھی ہماری قومی ٹیم کا ہی خاصا ہے۔
بےشک یہ ٹیم کسی بھی شعبہ میں کارکردگی نہ دکھائے مگر اس کی باؤلنگ بیٹری خصوصاََفاسٹ باؤلنگ ہمیشہ دوسری ٹیموں کے لئے دہشت اور خوف کی علامت رہی ہے۔ کرکٹ تاریخ میں بہت ہی کم مواقع ایسے ملیں گے جب پاکستانی باؤلنگ نے کبھی اپنے کپتان، کوچ، بورڈ اور قوم کو مایوس کیا ہو۔ بہت ہی کم ہوا کہ ہمارا باؤلر آف کلر ہوا۔ باؤلنگ کی تاریخ میں فضل محمود سے لے کر یاسر شاہ نے جو ریکارڈز بنائے ہیں وہ آج بھی ہر کرکٹ لور کے لئے کامیابی کا درخشاں ریفرینس ہیں۔
فیلڈنگ کے بارے میں بھی بڑے آرام سے کہا جا سکتا ہے کہ پاکستانی ٹیم ون ڈے میچ میں آرام سے 20/22 رنز اپنی کمزور فیلڈنگ سے اور دو سے تین کیچز ڈراپ کرنے کا مخالفین کو تحفہ دینے میں کنجوسی نہیں کریں گے۔ اسی طرح ٹیسٹ کرکٹ میں بھی ہماری فیلڈنگ سے 45/50 رنز فالتو ملنا اور 5/6 ڈراپ کیچز، 2/3 آسان رن آؤٹ نہ کر سکنے کے تحفے بھی مخالف ٹیم کا وہ حق ہے جو اسے پاکستان کی کرکٹ ٹیم سے کھیلنے کی صورت میں بائی ڈیفالٹ (by default) ملا ہی کرتا ہے۔
بس ایک ہماری بیٹنگ ہی وہ شعبہ ہے جس نے تقریباََ ہمیشہ ہی ٹیم، کپتان، کوچ اور پوری قوم کو مایوس کیا ہے۔ چوتھی اننگز میں یہ بیٹنگ اگر 400 سے زیادہ رنز کا ریکارڈ ٹارگٹ حاصل کر لیتی ہے تو یہ عین ممکن ہے کہ 176 رنز کا ٹارگٹ حاصل کرتے ہوئے 150 رنز پر 2 کھلاڑی آؤٹ سے ٹارگٹ کی طرف بڑھتے بڑھتے شروع والے ایک، دو بیٹسمینوں کی غیر ذمہ دارانہ شارٹس اور باقیوں کے بلاوجہ انڈر پریشر آنے سے ساری ٹیم 171 رنز پر آؤٹ ہو جائے۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ ایک اننگز میں 350 رنز کرنے والی ٹیم اپنی دوسری اننگز میں صرف 43 رنز پر آؤٹ ہو کر میچ 40 رنز سے ہار جائے۔ کرکٹ لورز ترستے ہی رہے کہ کبھی جاوید میاں دار، انضمام الحق، یونس خاں، محمد یوسف جیسے پائے کے کھلاڑی ایک ہی وقت میں اکٹھے ٹیم کی طرف سے کھیل رہے ہوں تاکہ یہ ٹیم اوپنرز کی ایک دو وکٹیں جلدی گرنے سے حواس باختہ ہو کر "تو چل میں آیا” کی عملی تفسیر نہ بنا کرے۔
مصباح الحق کی کپتانی میں قومی ٹیم کی تشکیل نو کے بعد سے تمام پرانے کھلاڑی اور کرکٹ لورز سالوں سے چیخ رہے تھے کہ ہمارے یہاں ایک ہی وقت میں 4 سے 5 لمبی اننگز کھیلنے والے بلے باز بمثل میتھیو ہیڈن، سٹیو وا، ایڈم گلکرسٹ، جسٹن لینگر، اے بی ڈی ویلیرز، ٹنڈولکر، لارا، ویرات کوہلی، روہت شرما وغیرہ پیدا نہیں ہو رہے۔ اور جب تک ایسا نہیں ہوتا کرکٹ میں حکمرانی کے خواب نہیں دیکھے جا سکتے۔ اس لئے اس بیٹنگ کے مسئلہ کو حل کرنے کی طرف توجہ کریں مگر صاحبان اختیار "سکون” کی گولی لے کر سوتے رہے۔
نتیجہ سامنے ہے۔ اکیلا سرفراز کیا کرے، جب دوسرے بیٹسمین قسم کھائے بیٹھے ہیں کہ وہ بدحواس ہو کر وکٹیں گنواتے رہیں گے۔ پچھلے مہینے نیوزی لینڈ سے ٹیسٹ سیریز 2 کے مقابلہ میں 1 سے ہارنے والی ٹیم اس پوزیشن میں تھی کہ اپنے ہارنے والے دونوں میچز آسانی سے جیت سکتی تھی۔ اس شکست سے ٹیم نفسیاتی طور پر اتنا ڈی مورالائزڈ (demoralized) ہوئی کہ آج جنوبی افریقہ کے ہاتھوں 3 صفر سے وائٹ واش کی ہزیمت اٹھانی پڑی ہے۔
نیوزی لینڈ سے سست بیٹنگ وکٹوں پر کچھ مقابلہ کیا بھی مگر 3 ٹیسٹ میچوں میں 24 وکٹیں لینے والا جنوبی افریقہ کا اوسط درجہ کا باؤلر آلیوئیر تیز گرین وکٹوں پر شارٹ پچ گیندیں کرا کرا کے بیٹسمینوں کو کیچ آؤٹ کراتا رہا جبکہ گڈ لینتھ گیندوں پر ہمارے بیٹسمینوں کی سٹمپس اڑاتا رہا۔ راقم یہ سوچ رہا ہے کہ آلیوئیر کی اس پرفارمنس کے ساتھ اگر آف کلر دکھائی دینے والے ڈیل اسٹین اور رباڈا اگر فارم میں آ جاتے تو ہمارے کرکٹی شیروں کا کیا حشر ہوتا۔
یہ بھی ہماری بیٹنگ لائن کا ہی خاصا ہے کہ سری لنکا کے رنگنا ہیراتھ، نیوزی لینڈ کے اعجاز پٹیل اور جنوبی افریقہ کے آلیوئیر جیسے اوسط درجے کا باؤلروں کو ورلڈ کلاس باؤلرز اور لیجینڈز بنا ڈالے۔
لاہور کے ملنگ ججی شاہ کا کہنا ہے کہ قوم سمجھ ہی نہیں سکی کہ ارباب اختیار نے پکا فیصلہ کر لیا ہے کہ ہماری قوم کفار کی ساری کھیلوں جیسے کرکٹ، ہاکی، اسکوائش اور اسنوکر کی عالمی چیمپئین شپس چھوڑ کر (بلکہ لات مار) صرف اور صرف اسلامی اور شریعی کھیلوں (جیسے گلی ڈنڈا، بندر کلہ اور کماس گھوڑی) کو اپنے قومی کھیل کے طور پر اپنا لے۔ اگر یقین نہیں آتا تو خود دیکھ لیں کہ 1994ء میں ان ساری کافر کھیلوں یعنی کرکٹ، ہاکی، اسکوائیش اور اسنوکر کے عالمی چیمپئین پاکستان کا صرف 24/25 سالوں میں ارباب اختیار نے کیا حشر کر دیا ہے کہ آج دوسرے ممالک کی ٹیمیں اپنے ریکارڈ بہتر بنانے کے لئے ان کھیلوں کی ہماری قومی ٹیموں سے کھیلا کرتی ہیں۔