پیپر، سوال، بحث اور سوشل میڈیا

Print Friendly, PDF & Email

پچھلے دو دن سے سوشل میڈیا پر جماعت دہم کے مطالعہ پاکستان کے پیپر میں شامل ایک سوال پر بہت زیادہ بحث ہو رہی ہے۔ دوست احباب جگت بازی اور طعنہ زنی کے ساتھ ساتھ اپنے شدید غم و غصے کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ دہم کلاس کے اس پیپر میں جو سیکنڈ ٹائم ہوا تھا۔ اس کے حصہ انشائیہ میں ایک سوال تھا کہ میاں محمد نواز شریف کے ادوارِ حکومت کے آٹھ اہم واقعات بیان کیجیئے ـ اب اس پر تنقید کرنے والے کچھ دوستوں نے کہا کہ یہ دیکھیں اس طرح شریف خاندان عوام میں اپنی مشہوری کروا رہا ہے۔ کہیں اس کا موازنہ شہنشاہت سے کیا گیا جس میں بس شاہی خاندان کی توصیف کے علاوہ کچھ بیان کرنا گستاخی کے زُمرے میں شامل ہے۔ پی ٹی آئی کے ڈاکٹر عارف علوی صاحب نے نواز شریف دور کے اپنے چند پسندیدہ واقعات گنواتے ہوئے پوچھا کہ کیا بچے یہ بھی جواب دے سکتے ہیں؟

اس تمام بحث و تکرار میں میرے لیے دلچسپی کا کوئی پہلو موجود نہیں ہے۔ سوائے ایک بات کے اور وہ یہ ہے کہ سوال بنانے والے صاحب یا صاحبہ یقینناً کوئی صاحب علم ہستی ہوں گی۔ وہ پیپر یا سوال بنانے کے فن میں ماہر بھی ہوں گے۔ اسی لیے تو انہیں پورے لاہور بورڈ کے پیپر بنانے کے لیے ہائیر کیا گیا ہے۔ لیکن ایک سوال بار بار ذہن میں گھوم رہا ہے کہ کیا سوال بنانے والے صاحب یا صاحبہ نے ایک اچھے سوال یا پیپر بنانے کی بنیادی اور اہم خصوصیات کو مدنظر رکھا ہے۔ ایک اچھا سوال یا پیپر بنانے کے لیے کم از کم اس سوال میں دو خوبیاں ہونی چاہیے۔ ایک یہ کہ اس میں validity ہونی چاہیے۔ مطلب یہ کہ کیا پوچھے جانے والے اِس سوال سے ہم جو کچھ جاننا چاہتے ہیں وہ جان سکیں گے؟

یہ بھی پڑھئے:   حلب کے درد میں اخلاقی قدریں پامال نہ کیجیے – انور عباس انور

دوسری اہم خصوصیت ہے reliabilty جس کا مطلب ہے کہ کیا بار بار مختلف لوگوں سے مختلف اوقات میں وہ سوال پوچھا جائے تو اس کا جواب کس حد تک تبدیل ہوتا ہے یا پہلے والا رہتا ہے۔ اگر جواب تبدیل ہوتا رہے گا تو سوال Reliable نہیں ہو گا۔ اگر ہم اس پیپر کو دیکھا جائے تو اسے میں ہم کسی حد تک validity تو ڈھونڈ لیں گے کہ میاں محمد نواز شریف صاحب پاکستان کے تین دفعہ وزیر اعظم رہے ہیں۔ مطالعہ پاکستان میں ان کی ذات کے بارے میں سوال کرنا کوئی اتنا غلط بھی نہیں ہے لیکن اس سوال کی reliability پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ایک تو یہ کہ آٹھ اہم واقعات کا تعین کون کرے گا۔ ہر شخص کے نقطہ نظر کو سنا جائے تو آپ کو الگ الگ واقعات سننے کو ملیں گے۔ اگر یہ بھی کہا جائے کہ ان کے جواب پہلے کتاب میں موجود ہیں۔ تو پھر بھی اس کی مارکنگ کے حوالے سے کس طرح یقین کیا جا سکتا ہے کہ چیک کرنے والا ہر شخص اس جواب پر یقین کرے گا جو کہ پیپر میں یا کتاب میں موجود ہے۔

حالیہ دہم کے امتحانات پر ایک سینٹر میں بورڈ کی طرف سے بھیجا جانے والا چیکر عمران خان صاحب کا بہت بڑا حمایتی ہے۔ وہاں بیٹھ کر شریف خاندان کو جی بھر کر گالی دیتا ہے۔ اس نے ان لوگوں کو جو اُس کے نظریات سے اتفاق کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ خان صاحب کی تعریف کرتے ہیں۔ چاہے جھوٹی تعریف ہی کیوں نہ کرتے ہوں۔ وہ ان نگرانوں کے ساتھ بہتر طریقے اور اچھے رویے کے ساتھ پیش آتا ہے۔ ایسے حالات میں اگر کوئی بچہ نواز شریف کے حق میں کچھ لکھ دیتا ہے اور چیکر اسے غلط سمجھتے ہوئے کانٹا لگا دیتا ہے۔ تو اس سے سوال بنانے والے یا چیک کرنے والے کا کیا نقصان ہے؟؟ اصل نقصان تو اس بچے کا ہے جسے پیپر دوبارہ چیک کروانے کے نام پر بھی بھاری رقم فیس کی مد میں بھر کر بھی صرف نمبر گننے کی اجازت ہے۔ پیپر چیک کرنے والے کو کوئی کچھ بھی نہیں کہہ سکتا۔ اس سے کتنے وسیع پیمانے پر بچوں کا نقصان ہو سکتا ہے۔ اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔

یہ بھی پڑھئے:   عکس خوشبو ہوں، بکھرنے سے نہ روکے کوئی - خوشنود زہرا

کم از کم پیپر بنانے والوں کو حکمرانوں کی خوشنودی کی بجاۓ یا چاہے وہ دا۔ستہ ایسا نہیں کر رہے پھر بھی انہیں چاہیے کہ اپنے سوالوں کو پہلے سے مروجہ اصولوں پر ایک دفعہ ضرور پرکھ لیں تا کہ بہت سے بچوں کے مستقبل کا نقصان نہ ہو۔ یہ صرف پہلا اور اکیلا واقعہ نہیں ہے ایسا ہوتا رہتا ہے۔ جس کی طرف سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

Views All Time
Views All Time
748
Views Today
Views Today
1

Leave a Reply