بھاگ بھری ناول ایک جائزہ

Print Friendly, PDF & Email

اس بات پر تقریبا اکثریت کا اتفاق ہے کہ آج ہمیں اپنے اردگرد جس گھٹن اور شدت پسندی کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے اس کے بیج اَسی کی دہائی میں بوئے گئے تھے۔ ضیا دور میں روس کو سرخ پانیوں سے دور رکھنے کے لیے جس تباہ کن حکمت عملی سے کام لیا گیا اس کے نتائج ہم روز بھگت رہے ہیں۔ ان بوئے ہوئے بیچوں سے جنم لینے والی نئی نسل جیسے جیسے جوان ہوتی گئی تو اس نے ہمیں ہی ڈسنا شروع کر دیا۔یہ نسل اپنی بھرپور جوانی کی عمر کو پہنچتے ہوئے ہمارے ہزاروں بہن بھائیوں کو دیمک کی طرح آہستہ آہستہ کھاتی رہی ہے۔ 9/11 کے بعد اس شدت پسندی میں یک دم تیزی آنا شروع ہوئی۔ پاکستانی شاعروں، ادیبوں اور آرٹسٹوں نے اس شدت پسندی کے خلاف اپنے تائیں مزاحمت کرنے کی پوری کوشش کی لیکن اس دوران اردو ادب اور خاص کر ناول کی صنف میں کوئی ایسا کام نہیں ہوا جس میں خالصتا شدت پسندی، مزہبی انتہا پسندی اور اس سے ہونے والے نقصان کو موضوع بنایا گیا ہو۔ گو کہ اس دوران پاکستان کے انگریزی ناول نگاروں نے شدت پسندی کو اپنا موضوع سخن ضرور بنایا لیکن اردو ادب اس سے تقریباً تہی دامن نظر آیا۔ انگریز ناول نگاروں میں شاہد حامد نے دی ریلیکٹینٹ فنڈامینٹلسٹ، محمد حنیف نے اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگو اور ندیم اسلم صاحب نے میپ فار لوسٹ لوور جیسے ناول لکھ کر اس بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور اس سے ہمارے معاشرے پر پڑھنے والے اثرات کے بارے میں اپنے حصے کی آواز بلند کی۔ ایسے میں اردو ادب میں ایک ایسے ناول کی شدت سے کمی محسوس ہو رہی تھی جو خاص کر شدت پسندی کو اپنا موضوع سخن بنائے۔ میری ناقص رائے میں صفدر زیدی صاحب کا ناول بھاگ بھری اس حوالے سے کافی حد تک اس کمی کو پورا کرتا نظر آتا ہے۔

بھاگ بھری ایک ایسا ناول ہے جس میں مصنف نے اس خطہ برصغیر کے دو بڑے ملکوں میں جنون کی حد تک بڑھتی ہوئی انتہا پسندی، سماجی ناہمواریوں ، معاشرتی نا انصافیوں، ماضی، حال اور مستقبل کی ایسے تصویر پیش کی ہے جسے یا تو ہم دیکھنا نہیں چاہتے یا دیکھ کر نظر چرا جاتے ہیں۔ بھاگ بھری بہت بڑے کینوس پر پھیلا ہوا ایک شاندار ناول ہے۔ جس میں بہترین ادبی فن پارے کی تمام خوبیاں نمایاں نظر آتی ہیں۔ پلاٹ کا شاندار ربط، جاندار کردار، ہمارے تاریخی پس منظر، سماجی ناانصافیوں اور مذہبی شدت پسندی کو عیاں کرتے ہوئے ایسے غضناب مکالمے ناول کا حصہ ہیں کہ قاری مصنف کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ناول پڑھتے ہوئے میرے لیے ون لائنر اس قدر محسور کن اور پرکشش تھے کہ ایک ایک ون لائنر پر داد دیے بغیر آگے بڑھنا ناممکن سا ہو جاتا تھا۔ مصنف نے ذلتوں کے مارے ہوئے لوگوں اور مذہبی انتہا پسندی سے متاثر شدہ اداس نسلوں کی حقیقت پسندانہ تصویر کشی اس جاندار طریقے سے کی ہے کہ قاری حقیقت اور افسانے کو الگ کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتا کہ یہ ساری باتیں جا بجا اس کے اردگر پھیلی اور وقوع پزیر ہوتی نظر آتی ہیں۔ ناول میں ایسی حقیقت جسے بیان کرنے سے بہت سے لوگ گھبراتے ہیں اور willing suspension of desbelief کا شاندار امتزج دیکھنے کو ملتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے:   لفظوں کی کوئل۔۔۔ نیئر رانی شفق

willing suspension of disbelief ایک ایسا شاندار ادبی ترکیب ہے جسے ہم بین القوامی ادب میں جا بجا استعمال ہوتا دیکھتے ہیں لیکن پاکستانی ادب میں اس کا استعمال بہت کم ہوا ہے۔ تارڑ صاحب نے اپنے ناول بہاؤ میں اس ترکیب کا استعمال بہت شاندار طریقے سے کیا ہے۔ دراصل یہ ایک ایسا ادبی علامت یا ترکیب ہے جس میں لکھاری پڑھنے والے کو ایک ایسی دنیا میں لے جاتا ہے جہاں قاری فن پارے سے لطف اٹھانے کی خاطر حقائق اور تنقیدی سوچ کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔ سیموئل کالرج وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اپنی شاعری میں اس ترکیب کا استعمال کیا لیکن اس ادبی ترکیب کو ناول کی صنف میں شہرت گبرئیل گارشیا مارکیز کی وجہ سے ملی۔ بھاگ بھری کے مصنف نے بہت خوبصورتی سے اس کو اپنے ناول کا حصہ بنایا ہے کہ قاری کو ایک لمحے کے لیے بھی اجنبیت محسوس نہیں ہوتی چاہے وہ ناول کا آغاز ہو یا اس کا دوسرا حصہ ہو۔ ناول میں مصنف قاری کی انگلی پکڑ کر ایک ایسی دنیا میں لے جاتا ہے جو قاری کے لیے نئی تو ہوتی ہے لیکن اجنبی بالکل نہیں ہوتی شاید یہی وجہ تھی کے چار سو زیادہ صفحوں پر پھیلے اس ناول کو میرے لیے ایک ہی نشست میں پڑھنا زیادہ مشکل نہیں ہوا۔ اور اب تک یہ پہلا ناول ہے جو میں اتنے کم عرصے میں دو دفعہ پڑھ چکا ہوں۔

بنیادی طور پر ناول کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس کے پہلے حصے کا آغاز تو 3000 سال سے ہوتا ہے۔ جہاں ہم دیکھتے ہیں کہ برصغیر کی تباہی کے بعد انگریز تاج محل کو دریائے جمنا کے کنارے سے اٹھا کر دریائے ٹیم کے کنارے امانت کے طور پر ایستادہ کر دیتے ہیں تا کہ جب برصغیر کے حالات ٹھیک ہو جائیں گے تو یہ واپس لُٹا دیا جائے گا۔ تاج محل کو دیکھنے کے لیے اگلے تین سالوں کی ٹکٹیں پہلے ہی بُک ہو چکی ہیں۔ تاریخ کے طالب علموں کا ایک وفد پروفیسر کے ساتھ تاج محل دیکھنے جاتے ہیں۔ جہاں پروفیسر صاحب طالب علموں کے سوالوں کے جواب دینے کے لیے انہیں ایک کہانی سناتا ہے۔ اس کہانی کا آغاز 1985 میں بھاگ بھری سے ہوتا ہے۔ جس کا باپ وڈیرے حیدر شاہ کا قرض ادا کیےبغیر مر جاتا ہے۔ اس کے بعد بھاگ بھری کی ماں وڈیرے کا قرض ادا کرنے کے لیے اُس کی نوکر بن جاتی ہے۔ جیسے ہی بھاگ بھری تھوڑی جوان ہوتی ہے تو حیدر شاہ کا چھوٹا بھائی جعفر شاہ اُس کے زیادتی کرتا ہے۔ جس کے نتیجے میں بھاگ بھری کے ہاں ساون کے مہینے میں ایک لڑکا پیدا ہوتا ہے۔ بھاگ بھری اس کا نام ساون رکھتی ہے۔ ساون ناول کا ہیرو اور مین کردار ہے جس کے گرد ناول کی ساری کہانی گھومتی ہے۔ ساون بڑا ہوتا ہے تو وہ وڈیرے کے گاؤں سے بھاگ کر ایک مدرسے میں چلا جاتا ہے جہاں اسے مسلمان کر کے خالد نام دیا جاتا ہے۔ یہی خالد آگے چل کر خالد خراسانی بنتا ہے جو افغانستان جہاد سے لے کر کشمیر میں کافروں کو قتل کرنے، کراچی اور شمال میں اہل تشیع کو قتل کرنے تک کے فرائض سرانجام دیتا ہے۔ اس پہلے حصے میں بھارت اور پاکستان کے درمیان موجود اندھی نفرت، چپقلش، دونوں جانب موجود معاشرتی گھٹن اور عسکری سطح پر مفاد پرستی اور ہڈ دھڑمی کو بہت واضح الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس پہلے حصے کا اختتام پاکستان اور انڈیا کی جانب سے ایٹم بم کے استعمال اور اس سے برصغیر میں ہونے والی تباہی پر ہوتا ہے۔ میری کوشش ہو گی کے اگلے کالم میں دوسرے حصے کی تفصیل، مصنف کی جانب سے اٹھائے گئے ایسے سوال جو بذات خود ایک تحقیقی کتاب کے متقاضی ہیں اور ناول میں موجود جاندار مکالموں کو آپ کے سامنے پیش کروں۔

یہ بھی پڑھئے:   لمحہ بھر کے لئے سو چیئے تو ہم کہاں کھڑے ہیں؟ - حیدر جاوید سید
Views All Time
Views All Time
1238
Views Today
Views Today
1

Leave a Reply