شائستگی اور ذمہ داری کا دامن مت چھوڑیئے

Print Friendly, PDF & Email

ہم سب اعتراف کرتے ہیں کہ اس وقت وطن عزیز اپنی تاریخ کے مشکل ترین حالات سے گزر رہا ہے۔ دہشت گردی کا ناسور ہمیں اپنے حصار میں جکڑ چکا ہے،ہماری فورسز اس ناسور کا وجود مٹانے اور ملک عالیشان کو امن کا گہوارہ بنانے میں دن رات کوشاں ہیں۔ اس امر کے متعلق بھی دورائے نہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف ہماری بہادر فورسز نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

اس حقیقت میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ دہشت گردی کی جنگ میں ہمارے جیالے عوام نے بھی مثالی قربانیوں سے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ اس امر کا بھی اعتراف ہے کہ عوام اور سکیورٹی فورسز کے شانہ بشانہ ہماری سیاسی قیادت اور دینی پیشواؤں نے بھی اس دھرتی ماں کے تحفظ اور دہشت گردوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں۔ اس ضمن میں علامہ احسان الہی ظہیر ،علامہ نعیمی ،محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ، بشیر بلور،ہارون بلور سمیت بہت سارے شہدا شامل ہیں۔

ضرب عضب اور ردالفساد سے قبل بھی آپریشنز ہوئے البتہ ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کے بعد سکیورٹی فورسز کی جانب سے قوم کو مژدہ سنایا گیا کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے ،اور بزدل دشمن اپنی کمین گاہوں سے نکل کر افغانستان بھاگ گئے ہیں۔پاکستانی قوم کو اپنی فورسز پر ہمیشہ فخر رہا ہے اور تاقیامت رہے گا۔سکیورٹی فورسز کی قربانیوں اور جدوجہد کو سلام پیش کرتے رہیں گے۔ مگر ہمارے بزدل اور دکھائی نہ دینے والے دہشت گرد دشمن نے چوری چھپے اپنی کارروائیاں جاری رکھیں۔ جن میں انتخابات کے انعقاد کے قریب آتے ہی تیزی آگئی ہے۔دہشت گردوں کی تازہ ترین کارروائیوں میں پشاور کے بلور خاندان کے دلیر اور بہادر سپوت ہارون بلور،بنوں میں سابق وزیر اعلی ٰکے پی کے اکرم دورانی اور بلوچستان کے سابق وزیر اعلی نواب اسلم رئیسانی کے خاندان کو نشانہ بنایا گیا ۔ بلوچستان کے علاقے مستونگ میں خودکش حملے میں نوابزادہ سراج رئیسانی سمیت ڈیڑھ سو سے زائد افراد شہید کردئیے گئے۔ نوابزادہ سراج رئیسانی اور ان کے خاندان کو بلوچستان میں ”پاکستان کی آواز” قرار دیا جاتا ہے۔ دہشت گردوں کی جانب سے  سراج رئیسانی کو ٹارگٹ کرکے بلوچستان میں پاکستان کے حق میں بلند ہونے والی آواز کو خاموش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جس کی ہر محب وطن پاکستانی کی جانب سے مذمت کی گئی ہے اور رئیسانی خاندان سے اظہار ہمدردی کیا جا رہا ہے۔

پاکستان کے انتخابات کے انعقاد میں اب ایک ہفتے سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔انتخابی سرگرمیاں میں تیزی آ رہی ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی جانب سے عوام کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے منشور بھی پیش کیے گئے ہیں۔ لیکن ان پر تقاریر کم اور مخالفین پر تنقید کے نشتر برسانے پر زیادہ فوکس کیا جا رہا ہے۔ جس میں بعض اوقات شائستگی کی جگہ غیر مہذبانہ انداز اختیار کرکے مدمقابل سیاسی راہنماؤں کو زچ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔پاکستانی سیاست میں بیہودگی، غیر شائستگی اور اپنے مخالفین پر کیچڑ اچھالنے کی ابتدا یوں تو 1970 کے انتخابات سے ہوئی۔ لیکن اس کی غیر شائستگی کا انداز اس شکل میں نہیں تھا جو آج کل ہے۔ اس میں تیزی میاں نواز شریف کی جانب سے اس وقت آئی جب جنرل ضیاء الحق کی زمین و آسمان کے درمیان موت واقع ہونے کے بعد ہونے والے انتخابات ہوئے۔ آئی جے آئی کے پلیٹ فارم سے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور بیگم نصرت بھٹو کے خلاف،اخلاقیات کی تمام حدود عبور کی گئیں۔یہ غیر شائستگی تقاریر تک محدود نہ تھیں بلکہ دونوں ماں بیٹی کی جعلی عریاں تصاویر بنا کر ہیلی کاپٹروں کے ذریعے عوام میں پھینکی گئیں۔ شہباز شریف نے 2008 کے انتخابات اور 2013 کے انتخابات میں بھی اس کی جھلکیاں پیش کیں۔جس کو معتدل اور سنجیدہ حلقوں اور عوام کی اکثریت نے پسند نہیں کیاتھا۔

یہ بھی پڑھئے:   عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے خدشات،تحفظات ختم ہونے چاہئیں

اس مکروہ مہم میں فدیانہ صحافت کے علمبردار صحافیوں نے زرد صحافت کے حوالے سے عالمی شہرت رکھنے والے اپنے چیتھڑوں کے ذریعے اپنا حصہ ڈالا اور اس نعرے کو بلند کیا کہ” پہلے احتساب پھر انتخاب” یہ مہم 1977 کے مارشل لاء کے نفاذ کے بعد ہی شروع کردی گئی تھی۔

اب ایک بار پھر انتخابی مہم میں غیر شائستگی اور غیر مہذبانہ گفتگو شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔ اب کی بار یہ فریضہ میاں نواز شریف،شہباز شریف کی بجائے پاکستانی سیاست کے اہم فریق کی امیدوں کا محور پاکستان تحریک انصاف کے قائد کی جانب سے نبھایا  جارہا ہے۔ اس کے جواب میں مسلم لیگ کے اہم راہنما ( ایاز صادق وغیرہ) کی جانب سے بھی تلخ رویہ اپنایا گیا۔ ہرطرف سے اس غیر شائستگی کو غیر زمہ دارانہ حرکات سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔

سیاسی جماعتوں کے قائدین کو تو عوامی اجتماعات میں گفتگو کرتے ہوئے انتہائی محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے خصوصا ََایسی قیادت کو جن کے بارے میں عام تاثر یہ ہو کہ یہ پاکستان کے آنے والے حکمران ہیں۔ اور آج کل یہ تاثر عمران خاں کے متعلق پایا جاتا ہے،کیونکہ انتخابی عوامی اجتماعات کی کوریج کے لیے بیرونی میڈیا کے کان سن رہے ہوتے ہیں اور آنکھیں دیکھ رہی ہوتی ہیں۔لہذا انہیں اپنی تقاریر میں ایک مہذب،پڑھا لکھا اور ذمہ دار سیاستدان ثابت کرنے کی کوشش کرتا دکھائی دینا چاہیے۔تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ منزل سے چند قدم دوری پر پہنچ کرمنزل کھو جائے یا تخت اسلام آباد پر بٹھانے والوں کے ارادے تبدیل ہوجائیں۔

ملک کے سنجیدہ حلقوں میں ہماری موجودہ سیاسی قیادت میں سے پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو زرداری کے متعلق یہ رائے قائم کی جارہی ہے کہ اس کی انتخابی مہم انتخابی ضابطہ اخلاق کے اندر رہ کر چلائی جارہی ہے اور وہ اپنی مخالف سیاسی جماعتوں پر ذاتی تنقید کی بجائے اپنے مستقبل کے پروگرام پر بات کرتے ہیں۔ان کی تشہیری مہم بھی شائستگی اور سنجیدہ پن اپنائے ہوئے ہے۔

یہ بھی پڑھئے:   بداعتمادی بربادیوں کو دعوت دیتی ہے

انتخابات کا موسم چند روزہ ہے، حکومتیں بن جانے کے بعد سب نے اسی دھرتی پر رہنا ہے۔ خاندان جو سیاسی پارٹیوں میں تقسیم در تقسیم ہیں انہوں نے خاندان کے طور پر زندگی بھر ایک ساتھ ررہنا ہے۔ اس لیے ایسا طرز عمل اختیار کیا جائے جو تلخیاں اور دشمنیاں پیدا کرنے کی بجائے ایک دوسرے کو قریب لانے کا باعث بنیں۔ایسا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہمارے ملک کے اندرونی اور ہماری سرحدوں کے باہر حالات کچھ اچھے نہیں ہیں۔دشمن ہمارے خیر خواہ نہیں۔ وہ تو کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر ہمیں صفحہ ہستی سے غائب کرنے کے لیے بے چین ہیں۔اور ان کی کوشش ہے کہ پاکستان سے جمہوریت کو بوریا بستر گول کردیا جائے۔

حالات کے پیش نظرہماری سیاسی قیادت خصوصا ََکپتان کو اپنے طرز عمل اور رویے میں سنجیدگی اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور اگر

خدانخواستہ ملک سے جمہوریت کو ڈی ریل کردیا جاتا ہے،انتخابات ملتوی ہوجاتے ہیں تو اس کا سب سے زیادہ نقصان انہی(عمران خاں) کو ہوگا۔ قریب آئی تخت اسلام آباد کی منزل پھر دور ہوجائے گی۔ جو کہ عمران خاں کے لیے ایک زلزلے کے جھٹکے سے کم نہیں ہوگا۔ لہذا ابھی سے اس بارے سوچنا شروع کردیا جائے تو بعد میں پچھتانے سے بہتر ہوگا۔سیانے اور دانا کیا خوب کہہ گئے ہیں اب کیا پچھتائے ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عمران خاں کو انتخابی مہم کے لیے فری ہینڈ دیا جارہا ہے جبکہ دیگر جماعتوں کی راہوں میں رکاوٹیں حائل کی جا رہی ہیں۔ایسی ہی کچھ باتیں میڈیا والے بھی کررہے ہیں کہ ان پر عمران خان کے حوالے سے کچھ قدغنیں لگائی جا رہی ہیں اور یہ کام پیمرا کررہا ہے، حکومت کے وزیر اطلاعات سید علی ظفر کی جانب سے ان اقدامات سے اظہار برات کیا جارہا ہے۔ اس تاثر کو بھی زائل ہونا چاہیے، یہ باتیں نگران حکومتوں کے لیے باعث ندامت ہوں گی۔

Views All Time
Views All Time
318
Views Today
Views Today
1

Leave a Reply