عہد یوسفی تمام ہوا

Print Friendly, PDF & Email

ایک ایسے معاشرے میں جسے نہایت رسان سے” مباشرہ” بھی کہا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ، وہاں مشتاق احمد یوسفی صاحب اور دیگر مشاہیر کا ہونا بھی کسی خوشگوار احساس سے کم نہیں ، چہ جائیکہ ان مشاہیر کی فرقت کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ یوسفی صاحب دنیا سے رخصت ہوئے، اردو ادب سے باریک مزاح نگاری کا ایک شستہ و تہہ دار عہد اپنے اختتام کو پہنچا ۔

پھر سوچتا ہوں کہ نوجوان نسل میں سے کتنے کوئی ایسے ہوں گے جنہوں نے ” واقعی” یوسفی صاحب کی کتابیں پڑھی ہوں گی؟ مجھ ایسے بہت سوں کو تو سوشل میڈیا یا پرنٹ الیکٹرونک میڈیا سے خبر پڑھ سن کر پتا چلا ہو گا تو انہوں نے سوچا ہو گا کہ یہ کون تھے ؟ اوہ اچھا ! یہ تو وہی بزرگ تھے جن کے با تصویر جملے سوشل میڈیا پر نظر آتے تھے۔ 

سوچ بارِ دگر دامن گیر ہوتی ہے تو دھیان ان نہایت روشن لوگوں کی خجل پیشانیوں اور نم آںکھوں کی طرف دوڑ جاتا ہے ، جو اسی معاشرے میں خمِ گریز سے گزر رہے ہیں۔جن کا نام کلام اور ذکر اسی وقت ہوتا ہے یا ہو گا جب وہ دنیا سے چلے جائیں گے۔ میں ہر چراغ کے بجھ جانے پر یہی واویلا کرتا ہوں کہ صاحب ! میسر و موجود کی قدر کرو ! قدر اس وقت کہ جب وہ ساتھ ہوں ! یہ قدر دانی ہی حقِ قدر ہے۔

یہ بھی پڑھئے:   پناہ گزین ہماری مدد کے منتظر !

ہم لوگ ،جنہیں ایک خاص بات میں یدِ طولی حاصل ہے اور وہ یہ کہ ہم سب کچھ بھلا دینے میں اپنی کوئی مثال نہیں رکھتے ! ہم بد قسمتی سے ، شخصیت پرستی سے لگاؤ اور یاد پرستی سے حذر رکھتے ہیں ۔ رجحان درست کر لینے کی اشد ضرورت ہے صاحبو ! اردو سے آپ کا شغف، سوشل میڈیا نہیں، گھر میں پڑھی جانے والی کتابوں سے ثابت ہو گا ، کتاب ضرور رکھئیے، تا کہ ہمیں اور ہمارے بچوں کو ، ان مشاہیر کا کلام و نام ، دمِ رخصت اجنبی نہ لگے ! اور افسوس ایسے ہی ہو جیسے واقعی کوئی گھر کا فرد چلا گیا ہے. 

کچھ لوگ ! جنہیں یاد نہیں کرتی ہے دنیا

کچھ پھول ! جو گلدستوں میں شامل نہیں ہوتے ! ان للہ و انا الیہ راجعون

Views All Time
Views All Time
522
Views Today
Views Today
1

Leave a Reply