استحکامِ پاکستان کیسے ہو؟ | میر احمد کامران مگسی

Print Friendly, PDF & Email

استحکامِ پاکستان پر مکالمہ کرنے کی ضرورت جتنی آج ہے شاید پہلے کبھی ایسی ضرورت نہ تھی۔ پاکستان کے قیام کو ستر برس ہوچکے ہیں پے در پے کی گئی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے ہم مزید غلطیاں کئے چلے جا رہے ہیں اور سیاسی بحران کا عالم یہ ہے کہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ سانحہ یہ ہے کہ گذشتہ سات عشروں میں پاکستان میں بننے والی کوئی بھی حکومت اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر سکی ہے۔ ہر حکومت کو غیر آئینی غیر جمہوری طریقوں سے چلتا کیا گیا۔ منتخب وزراء اعظم کو گولیاں لگتی راولپنڈی کی جلسہ گاہوں نے دیکھی۔ اسی راولپنڈی میں عوام کے مقبول ترین راہنما کو پھانسی کے پھندے پر جھلایا گیا۔ اگر ہم اس ستر سالہ تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو جس تواتر کے ساتھ حکومتیں گرائی گئیں وہ ہماری تاریخ کا ایک شرمناک باب ہے ۔یہاں تک کہ بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو کو لوٹ پوٹ ہو کر کہنا پڑا کہ،”اتنی جلدی تو میں اپنی دھوتیاں نہیں بدلتا جتنی جلدی پاکستان میں حکومتیں بدل جاتی ہیں“۔

لیکن اس بدترین طنز پر کوئی سبق سیکھنے کی بجائے ہماری اسٹیبلشمنٹ ڈوریاں ہلاتی رہی حکومتیں بدلتی رہیں۔ جمہوری عمل ایک مذاق بن کر رہ گیا۔ستر برسوں میں کم و بیش تیس وزراء اعظم کے چہرے تاریخ کی ٹائم لائن پر ہمیں نظر آتے ہیں ۔اوسطاً ہر وزیر اعظم کے حصہ میں دو سے ڈھائی سال کا عرصہ آتا ہے۔

نظریہ ضرورت، 58-2B، ہارس ٹریڈنگ، کبھی ٹرپل ون بریگیڈ براہ راست تو کبھی عدالتی چھتری تلے، کبھی چھانگا مانگا متعارف کرایا گیا، کبھی آپریشن مڈ نائٹ جیکال کے ذریعے گیدڑوں نے جمہوریت پر شب خون مارنے کی کوشش کی۔ الغرض جمہوری عمل کو روکنے اور سبوتاژ کرنے کا ہر مذموم ہتھکنڈہ استعمال کیا گیا۔ حالات کی ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ جو نواز شریف آج جمہوریت کا سب سے بڑا چیمپئن بن کر پاکستان کی سیاسی مارکیٹ میں وارد ہو رہا ہے اسی میاں صاحب نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ملکر کم و بیش چار حکومتوں کا قتل کیا۔ محمد خان جونیجوکی حکومت ہو یا محترمہ بے نظیر بھٹو کی دو حکومتیں ،ظفر اللہ جمالی ہوں یا یوسف رضا گیلانی ان سب کو غیر جمہوری، غیر آئینی اور غیر اخلاقی طریقوں سے گھر بھیجا گیا۔ ایجنسیاں اپوزیشن اتحاد تشکیل دیتی رہیں۔ اسامہ بن لادن جیسے دہشت گرد حکومتیں گرانے کیلئے فنڈنگ کرتے رہے۔

یہ تو ہے پاکستان کی جمہوری حکومتوں اور ان کے انجام پر ایک طائرانہ نظر ۔اب ایک نظر پاکستان میں ڈکٹیٹروں کی حکومتوں اور ان کے ملکی سیاست پر اثرات پر بھی ڈال لیتے ہیں تاکہ آئندہ کا لائحہ عمل بنانے اور تجزیہ کرنے میں آسانی رہے۔

پاکستان میں ملٹری انٹر وینشن کا بانی جنرل ایوب خان ہے جس کی غیر سیاسی سوچ کی بدولت چند خاندان تو ترقی کرکے بام عروج تک پہنچ گئے جبکہ ملک کے دونوں حصوں میں محرومی ، مایوسی اور غربت کے سائے گہرے تر ہوتے گئے۔ دونوں حصوں میں مساوی فوجی بھرتی کی بجائے بنگالیوں پر فوج میں شمولیت کے دروازے تنگ کر دیئے گئے۔ ان کے چھوٹے سینوں اور چھوٹے قد کو بہانہ بناکر فوج سے دور رکھا گیا جبکہ مغربی پاکستان میں اپنی بال دستی کو قائم رکھنے کیلئے ایک مخصوص خطہ پوٹھوہار کے لوگوں پر فوج کے دروازے کھول دیئے گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت کے غیر مساوی معاشی و سیاسی رویوں کے باعث ملک کے مشرقی حصے میں بڑھتی بے چینی نے شورش کو جنم دیا تو اس وقت وہاں صرف 35000 فوجی موجود تھے جبکہ اس کے مقابلہ میں بھارت نے مشرقی پاکستان کے بارڈر پر ساڑھے تین لاکھ فوج بھیج دی۔اس پر مغربی ونگ میں موجود فوجی یونٹوں کو مشرقی پاکستان بھیجا گیا تو وہ بغیر کسی ہوم ورک کے پہنچے تھے، زمینی حقائق سے نابلد ہونے کے باعث بلنڈر کرتے چلے گئے۔ اور یوں ٹائیگر نیازی کو سرنڈر کرنا پڑا اور ملک اپنے ایک بازو سے محروم ہو گیا۔ اس دوران پاکستان پر دوسرا ڈکٹیٹر یحییٰ خان مسلط کر دیا گیا تھا جس کے کریڈٹ میں شراب و شباب کی ڈرٹی کہانیوں کے اور کچھ بھی نہیں ہے ۔ ایوب خان کے غیر سیاسی اقدامات صرف ملک توڑنے کا باعث نہیں بنے بلکہ پاکستان کے مغربی ونگ میں بھی بے چینی اور محرومی کے سائے مزید گہرے ہوئے خاص کر ہمارے سرائیکی خطہ پر اس کے بہت برے اثرات مرتب ہوئے۔ انڈس بیسن ٹریٹی ہماری دھرتی کو بنجر و ویران کر گیا۔سرائیکی خطہ کو سیراب کرنے والے دریا ستلج بیا س اور راوی بیچ کر اسلام آباد بنایا گیا۔پانچ دریاوں کی یہ عظیم گزر گاہ ایک آمر کے سفاکانہ فیصلوں کی بدولت بنجر و ویراں ہو گئی۔اور یوں ہماری دھرتی ماں کی رگوں میں بہنے والا لہو یعنی دریا سوکھ گئے اور اس دھرتی کے فرزند اسلم جاوید کو کہنا پڑ گیا کہ

یہ بھی پڑھئے:   ٹیکسوں کے سیلاب سے بھرا بجٹ

میں ترسا میڈی دھرتی ترسی

ترسی روہی جائی

میکوں نہ آکھو پنج دریائی

یہاں کے لوگوں کو کالا باغ ڈیم کا لولی پاپ دیا گیا جسے دوسرے ڈکٹیٹر جنرل ضیاء نے ہمیشہ کیلئے متنازعہ بنا کر دفن کر دیا۔ نتیجہ کیا ہوا یہاں کی زراعت برباد ہو گئی،معیشت روبہ زوال ہو ئی اور غربت نے ڈیرے ڈال دیئے۔ اس غربت کو مذہبی ٹھیکداروں نے کس طرح ایکسپلائیٹ کیا یہ ایک علیحدہ چیپٹر ہے۔ لوگوں نے دو وقت کی مانگی ہوئی روٹی اور مفت دینی تعلیم کے بدلے میں اپنے قیمتی لال ان مذہبی ایجنٹوں کے سپرد کر دیئے ۔ جنہوں نے ان کو دینی تعلیم دینے کے نام پر اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرنا شروع کردیا ۔ دہشت گردی میں استعمال ہونے والا یہ انسانی ایندھن مذہب کے نام پر انتہائی ارزاں ملتا رہا۔ فرقہ واریت کی یہ انڈسٹری یعنی مدرسہ سسٹم کو خوب عروج حاصل ہو۔ مذہبی جنون کو اور فروعی اختلافات کو کم کرنے کی بجائے ابھارا جاتا رہا۔ تیسرے ڈکٹیٹر ضیاءکے دور میں آئین پاکستان میں اتنی ترامیم ہوئیں کہ آئین کا چہرہ ہی مسخ ہو کر رہ گیا۔ ضیاءنے اپنی ناجائز حکومت کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے پاکستان کی فوج کو کرائے کی فوج بناکر پرائی جنگ میں جھونک دیا اور کرایہ بھی وصول نہ کر سکا۔ اس جنگ میں 70ہزار پاکستانی جوان ، عورتیں اور بچے کام آئے اس کے علاوہ افغان جہاد کے نام پر40 ہزار مزید سویلین کام آئے۔ معاشی تباہی کا تخمینہ کم و بیش 280ارب ڈالرلگایا گیا ہے۔ اس کے بدلے میں ہمیں کیا ملا ؟ ذلت و خواری اور منتوں کے بعد اب تک ہم صرف قسطوں میں اٹھارہ ارب ڈالر وصول کر پائے اور وہ بھی ڈو مور ڈو مور کی بکواس سننے کے بعد۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ اٹھارہ ارب ڈالر بھی چند جرنیلوں اور ان کے چہیتی مذہبی جماعتوں کے ہاتھوں تک محدود رہے۔ آج ٹرمپ دھمکیاں دے رہا ہے تو یہ انفرادی قومی لٹیرے بجائے جواب دینے کے منہ چھپائے پھر رہے ہیں۔

اسی طرح چوتھے آمر جرنل پرویز مشرف نے سیاسی عمل کو اپنی مرضی کے تابع کیا ۔ ایک جماعت کی سرکاری سرپرستی میں قومی و صوبائی نشستوں کی بندر بانٹ کی گئی۔عوامی مینڈیٹ کو ریٹرنگ افسروں کے ذریعے پامال کرنے کا خوب ساماں کیا گیا۔ امریکہ کی ایک ٹیلی فون کال پر ڈھیر ہونے کی مشہورِ زمانہ روایت بھی انہی سے وابستہ ہے۔

الغرض ایک طویل داستان ہے اسٹیبلشمنٹ اور ایجنسیوں کے کھلواڑ کی جو ملکی سلامتی اور خوشحالی سے کیا گیا۔ سکون آج بھی نہیں ہے شوشے آج بھی چھوڑے جا رہے ہیں ۔ کبھی ٹیکنو کریٹس کی گورنمنٹ کا شوشہ، کبھی عدالت کے چھتری تلے صدارتی نظام کا شوشہ،کبھی براہ راست بوٹوں کی دھمکیوں سے ڈرا تے رہتے ہیں شیخ رشید جیسے بچے جمہورے۔اور کبھی سسٹم کو ہی لپیٹ دینے کی باتیں سنائی دیتی ہیں۔ یعنی انداز بدل رہے ہیں لیکن مقصد اب بھی وہی ہے کہ کس طرح اس سسٹم کو عدم استحکام کا شکار کرکے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کی جائے اور ٹیکنکل لوٹ مار کرنے کی ماہر اسٹیبلشمنٹ کو کسی پل چین نہیں ہے۔ کسی بھی مہذب اور ترقی یافتہ معاشرہ کی شناخت وہاں کی سول بالا دستی ہوتی ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں یہ بالا دستی کی جنگ سول و ملٹری رفٹ بڑھانے کا باعث بن چکی ہے۔

انہی ہتھکنڈوں سے نبرد آزما ہونے کیلئے سیاسی قیادتیں بھی ہمیشہ سے کوشاں رہی ہیں۔ سب سے پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو نے نیو سوشل کنٹریکٹ کا تصور دیا، پھر چارٹر آف ڈیمو کریسی سائن ہوا اور اگر آج رضا ربانی چیئر مین سینٹ انٹرا انسیٹیوشنل ڈائیلاگ کی اہمیت پرزور دے رہے ہیں تو مقصدیہی ہے کہ کسی طرح ملک کو اس عدم استحکام کی صورتحال سے نکال کر حالت استحکام میں لایا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت آ گیا ہے استحکام پاکستان کیلئے ملک کے تمام بالا دست طبقات مل بیٹھیں۔ تمام سٹیک ہولڈر اپنے اپنے اختیارات اور فرائض کو از سر نو مرتب کریں اور ایک نئے معاہدہ عمرانی کو تشکیل دے کر ایک مستحکم ،مظبوط اور خوشحال پاکستان کی بنیاد رکھیں۔ کسی بھی ملک کا ترقی پذیر ہونے کا سٹیٹس زیادہ دیر قائم رہے تو ملک کیلئے اچھا نہیں ہوتاپاکستان کو اب جلد از جلد ترقی یافتہ ملک کے طور پر دنیا کے سامنے آنا ہوگا۔ اس سلسلہ میں میری چند گزارشات ہیں جن پر عملدرآمد ہونا انتہائی ضروری ہے۔

یہ بھی پڑھئے:   عبدالستار ایدهی : سماج کا سب سے زندہ درویش

پارلیمانی جمہوری نظام ہی پوری دنیا سب سے پاپولر اور کامیاب طرز حکومت ہے اسی نظام کو مستحکم کیا جائے۔

جاگیرداری کا مکمل خاتمہ کیا جائے، غیر حاضر ذمہ دار کا تصور غیر اسلامی ہے اس کا خاتمہ کرکے ان جاگیروں کو منصفانہ طور پر مقامی آباد

کاروں کو الاٹ کیا جائے۔

ریاست اب مولوی مولوی کھیلنا بند کردے۔ ملائیت کو مساجد تک محدود کیا جائے۔ سیاسی جماعتیں مذہب کی بنیادپر رجسٹرڈ نہ کی جائیں۔ کبھی ریاست عوام پر طالبان کے نام سے دہشت گرد مسلط کرتی ہے تو کبھی غازیوں کی تشکیل کیلئے خادم رضوی جیسے کرداروں کو کھلی چھوٹ دی جاتی ہے۔ یہ غازی دن دیہاڑے ایک گورنر کو قتل کردیتے ہیں اور قاتل کو ہم قومی ہیرو قرار دیتے ہیں۔ کبھی مذہبی منافرت کے نام پر مشال جیسے لعل پھڑکائے جاتے ہیں تو کبھی نفرت سے بھرپور نوجوان اکرام اللہ ماچھی بے گناہ تبلیغیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔

ہمارا مروجہ تعلیمی نظام کمرشل ازم کی بد ترین شکل اختیا کر چکا ہے۔ ملک کا 80% طبقہ اپنے بچوں کو واجبی تعلیم دلانے کا ہرگز متحمل نہیں ہو سکتا ہے ۔میرٹ کے ڈرامہ نے 85% سے کم نمبر لینے والے طالب علم اپنی نصف زندگی تعلیم میں کھپانے اور لاکھوں روپے صرف کرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر صفر پر کھڑے ہوتے ہیں۔

مدرسہ نظام کو رائج تعلیمی نظام میں کنورٹ کرکے ریاست اسے اپنی تحویل میں لے۔ آج تک یہ نظام نہ تو کوئی نامور محقق دے سکا ہے، نہ ہی کوئی مصلح قوم اس نظام نے دیا ہے ۔ہاں اگر کچھ دیا ہے تو وہ ہے فرقہ واریت، مذہبی منافرت اور فروعی اختلافات۔

سعودی عرب اور ایران کے فکر کی فروغ کیلئے پاکستان کو میدان جنگ نہ بنایا جائے۔ ان کی مداخلت روکنے کیلئے ہر ممکن کوشش کی جائے۔

فارن پالیسی پر سجدہ سہو کیا جائے۔ جس اہل کتاب امریکہ کے ساتھ ملکر ہم نے ملحد روس کے ٹکرے کئے تھے۔آج اسی امریکہ سے دھمکی ملنے پر وہ ملحد ہمسایہ ہماری پشت پر کھڑا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اپنے ہمسایوں سےمخاصمانہ پالیسیوں کو ترک کرکے زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کرفارن پالیسی مرتب کریں کہ جغرافیہ تبدیل نہیں ہو سکتاہے ۔

مردم شماری کے حالیہ نتائج نے وفاقی اکائیوں یعنی صوبوں کے خدوخال اور سائز میں نمایاں تفاوت نے ایک مرتبہ پھر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔پنجاب ساڑھے گیارہ کروڑ کی کثیر آبادی کے ساتھ دوبارہ سب سے بڑے صوبے کے طور پر سامنے آیا ہے۔وفاقی اکائیوں میں یہ عدم توازن ملکی سلامتی اور استحکام کیلئے زہرِ قاتل ہے۔ صوبوں میں مساوات قائم رکے کیلئے ضروری ہے کہ پنجاب کوچار چارکروڑ کے تین صوبوں میں تقسیم کیاجائے۔ تاکہ ایک متوازن وفاقی یونٹ کا قیام عمل میں لایا جا سکے۔

انتخابی عمل میں ملک کی %90 عوام کو براہ راست شریک کرنے کیلئے انتخابی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ جبکہ معاملہ برعکس ہے ابھی کل ہی قومی اسمبلی میں انتخابی اصلاحات کا بل با اتفاق رائے منظور ہوا ہے جس کے مطابق انتخابی اخراجات کی حد پانچ کروڑ مقرر کی گئی ہے۔ یعنی ملک کی حکمران اشرافیہ طے کر چکی ہے کہ اس ملک کی اکثریت کو ہر حالت میں انتخابی عمل سے دور رکھنا ہے ۔ یہ امتیازی رویہ ملک کی سلامتی کیلئے نقصان دہ ہے۔ دس فیصدیہ نام نہاد اشرافیہ سیاست اور جمہوریت کو محض ایک کھیل سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے ان کی نظر میں رائے دہندگان کی حیثیت محض بھیڑ بکریوں سے زیادہ نہیں ہے۔ اس طبقاتی جمہوریت کے مضر اثرات کا اندازہ ہر ذی شعور خوب لگا سکتا ہے۔

صوبوں کو مزید خود مختار کیا جائے وفاق صرف تین سبجیکٹ یعنی فارن پالیسی ، کرنسی اور دفاع کو ڈیل کرے۔

Views All Time
Views All Time
304
Views Today
Views Today
1

Leave a Reply